اسٹیبلشمنٹ اعتراف کرے کہ میرے خلاف سازش کر کے 2018ء کا الیکشن چرایا: نواز شریف کا مطالبہ


غیر ملکی خبر رساں ادارے ایشیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ وہ ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق نواز شریف کوٹ لکھپت جیل کی سلاخوں کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنی زندگی کی سب سے مشکل جنگ لڑ رہے ہیں جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کو بھی 70 سالہ تسلط میں اس وقت سب سے پیچیدہ چیلنج کا سامنا ہے۔

نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ڈیل سے متعلق ہر طرح کی پیشکش کو مسترد کر دیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف سے رابطہ کیا ہے اوراس مرتبہ ان کے چھوٹے بھائی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو بھی یہی کہا گیا کہ وہ اپنا اینٹی اسٹیبلشمنٹ مؤقف تبدیل کریں اور کچھ ماہ کے لیے بیرون ملک چلے جائیں۔

شہباز شریف اور پارٹی کے کچھ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو یہ ڈیل قبول کرتے ہوئے اپنی صاحبزادی مریم نواز کے ہمراہ لندن چلے جانا چاہئیے اور کچھ ماہ بعد واپس آ جائیں۔ اس کے بدلے میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے نواز شریف کی سزا معطل کر دی جائے گی جبکہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو بھی ختم کر دیا جائے گا۔ تاہم نواز شریف نہ تو اسٹیبلشمنٹ پر بھروسہ کر رہے ہیں اور نہ ہی وطن چھوڑنے پر راضی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دے دیا ہے کہ وہ وطن چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے سازشی عناصر اس بات کا اعتراف کریں کہ انہوں نے نوازشریف کو سازشوں کے ذریعہ وزیراعظم ہاؤس سے نکلوایا اور 2018ء کا الیکشن بھی دھاندلی سے چرایا۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی لندن میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف اس طرح کا کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے جو انہیں اور مریم نواز کو پاکستان سے باہر جانے اور سیاست سے علیحدہ ہونے پر مجبور کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ قابل اعتماد نہیں ہے۔ اسحاق ڈار کے ان بیانات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اب اعتماد کا رشتہ نہیں رہا۔ نواز شریف کو ڈیل پر قائل نہ کر سکنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے پاس اب محدود آپشنز موجود ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان ہاؤس تبدیلی میں وزیراعظم عمران خان کو عہدے سے ہٹا کر فارورڈ بلاک بنایا جا سکتا ہے جبکہ دوسری جانب شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی مدد سے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنا سکتے ہیں۔

دوسری آپشن یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ معیشت کو بچانے کے لیے واشنگٹن اور ریاض سے ڈالرز کی اُمید کرتے رہیں، لیکن یہ کوئی دیر پا حل نہیں ہے۔ اس سے معیشت میں استحکام تو آ سکتا ہے لیکن بہتری کی گنجائش نہیں ہوگی۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس آخری آپشن یہی ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ڈوبنے دیں اور نئے عام انتخابات کروا دیں۔

https://www.asiatimes.com/2019/09/opinion/pakistani-establishment-facing-historic-challenge/


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).