پولیس کی حراست میں جاں بحق ہونے والے صلاح الدین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی


رحیم یار خان پولیس کی حراست میں جاں بحق ہونے والے صلاح الدین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ آ گئی ہے۔ رپورٹ نے پولیس افسران کے تمام دعوں کو جھوٹا ثابت کر دیا ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق صلاح الدین پر تشدد کیا گیا تھا۔ نجی ٹی وی چینل کے مطابق پوسٹمارٹم رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ صلاح الدین کے جسم کے مختلف حصوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے جن کی پیمائش 3.4 سینٹی میٹر، 4.5 سینٹی میٹر اور 0.5 سینٹی میٹر ہے۔

صلاح الدین کی گردن، کہنی، دائیں کندھے، دائیں گھٹنے، ہاتھ اور دائیں ٹانگ پر بھی تشدد کے نشانات موجود تھے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق صلاح الدین کی دائیں آنکھ کے نزدیک بھی تشدد کا نشان پایا گیا جبکہ کھوپڑی، سینہ اور دل درست حالت میں پائے گئے۔

صلاح الدین کی گردن کی ہڈی بھی درست حالت میں پائی گئی اور گردن کے ٹیشو، تھائی رائیڈز، دل، گردے اور تمام اعضاء صحت مند تھے۔

حکام کے مطابق تشدد زدہ جسم کے حصوں کے نمونہ جات کو فرنزک رپورٹ کیلئے لیبارٹری بھجوا دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی رپورٹ کے باوجود صلاح الدین کی موت کے اسباب جاننے کے لیے فرنزک لیبارٹری کی رپورٹ کا انتظار کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت نے اے ٹی ایم چور صلاح الدین کی پولیس کی حراست میں ہلاکت پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دے دیا ہے دوسری جانب صلاح الدین کے وکیل حسان خان نیازی کا کہنا ہے کہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ وزیراعظم عمران خان اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو صلاح الدین کیس کی جھوٹی رپورٹ بھیج دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ’مقتول کے ورثاء کی اجازت کے بغیر صبح 5 بجے اس کا پوسٹمارٹم کر دیا گیا، غسل دیتے ہوئے پتا چلا کہ اس پر شدید تشدد کیا گیا تھا‘۔ حسان خان نیازی نے نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب صلاح الدین کو قتل کر دیا گیا تو اس کے والد کو اس کی میت نہیں دی جا رہی تھی اور جب بھی کوئی فون کر کے پولیس والوں سے پوچھتا اور صلاح الدین کا نام لیتا تو پولیس والے فون بند کر دیتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میت ورثاء کے حوالے کی گئی تو ایس پی حبیب نے قرآن کی قسمیں کھا کر کہا کہ تشدد نہیں کیا گیا لیکن جب صلاح الدین کے والد نے بیٹے کی میت کو غسل دیا تب انہوں نے دیکھا کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں تشدد نہ کیا گیا ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).