معتزلہ ۔ تاریخ اسلام کا ایک گمشدہ باب (1)


\"daud-zafar-nadeem\"جدید دور کے متجدیدین کو سمجھنے سے پہلے تاریخ اسلام کے ایک گمشدہ باب کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معتزلہ عالم اسلام کا ایک نہایت اہم مکتبہ فکر رہا ہے جس نے عالم اسلام کے سوچنے اور سمجھنے والے اذہان کو ہر دور میں متوجہ کیا ہے۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ عالم اسلام کے اس گمشدہ باب کے بارے میں غیر جانبداری اور چھان پھٹک کے بعد تحقیقی دستاویز تیار کی جائے مگر ہمارے ہاں مسلمانوں کی تاریخ کے حوالے سے غیر جانبداری سے کام کرنے والے مسلمان فضلا نہایت محدود ہیں۔ معتزلہ کے بارے میں یہ فضلا صرف اس تاریخ کے پروپیگنڈا کو آگے منتقل کرتے ہیں جو ان کے مخالفین نے ان کے خلاف کیا تھا۔

معتزلہ کے بارے میں سنجیدہ کام کرنے والوں کو سب سے زیادہ یہ مشکل درپیش رہتی ہے کہ ان کے بارے میں ان کے کسی شخص کی کتاب نہیں ملتی۔ یہ تعصب اور تنگ نظری کی بہت بڑی مثال ہے کہ عالم اسلام سے ان کی تمام کتب کو ضائع کر دیا گیا، اس لئے اب ان کے بارے میں تمام تر انحصار ان کے مخالفین کی کتب پر کیا جاتا ہے۔ نوعمری میں ہی مجھے معتزلہ کے بارے میں گہری دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

مامون الرشید کو مسلمانوں کی تاریخ کا عروج سمجھا جاتا ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب بغداد کی عباسی سلطنت دنیا کی اہم ترین قوت بن چکی تھی۔ اس کی افواج نے اس وقت کی دنیا کا ایک قابل قدر حصہ فتح کرلیا ہوا تھا۔ مگر مامون کی عباسی سلطنت کی شہرت کا باعث اس کی فتوحات نہیں تھیں بلکہ اس کا بیت الحکمت تھا جو پوری دنیا کے علوم کو عربی زبان میں منتقل کرنے کاکام کر رہا تھا۔ یہاں یونانی فلسفے، پاک و ہند کے فلسفے اور چینی فلسفے اور مذاہب کو بھی عربی زبان میں منتقل کیا جا رہا تھا۔ یہ اس سائنسی دور کے آغاز کی تیاری تھی جس نے آگے جا کر انسانی زندگی کو تبدیل کردینا تھا۔
اس وقت کے فلسفیوں اور مترجمین اور شارحین کو پوری طرح اندازہ تھا کہ وہ کس قدر اہم کام کر رہے ہیں۔ ویسے یہ کام منصور، مہدی اور ہارون کے ادوار میں بھی کسی نہ کسی طرح جاری رہا تھا مگر مامون کے عنان سلطنت کو سنبھالنے کے بعد اس کام میں جو تیزی آئی اس کی مثال اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی تھی۔ بلاشبہ یہ انسانی تاریخ کا ایک اہم دور تھا جس نے یونان کے اس عظیم دور کی یاد دلا دی تھی جب سقراط، بقراط، افلاطون اور ارسطو جیسے عظیم فلاسفر دنیا میں اپنی عقل و دانش کا چراغ جلا رہے تھے۔ بد قسمتی سے اس دور کی علمی اور سائسی ترقی کے بارے میں بہت کم کام ہوا ہے اس کی وجہ اہل مغرب کا تعصب تو ہے ہی کہ انھوں نے دانستہ سائنسی اور علمی ترقی کے اس دور کو بہت کم اہمیت دی ہے مگر اس میں خود مسلمانوں کے تعصب کا بھی دخل ہے کہ وہ معتزلہ کے دور حکومت میں ہونے والے اس سارے کام کو ہی خلاف اسلام سمجھتے ہیں۔

مامون کے دور کو اس پورے سائنسی اور علمی دور میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کی تاریخ کی بات نہیں بلکہ انسانوں کی تاریخ میں فاتحین، مدبر، اور انصاف پسند حکمرانوں کی بہت سی مثالیں مل جاتی ہیں علم دوست حکمران بھی گاہے بگاہے مل جاتے ہیں مگر علم کو اس قدر اہمیت دینے والا اور علمی اور سائسنی ترقی سے اس قدر دلچسپی رکھنے والا حکمران شاید ہی کوئی دوسرا مل سکے۔ ایک طرف دنیا کی کلاسیک، الف لیلی کہ کہانیاں مدون کی جارہی تھیں، تو دوسری طرف حنین بن اسحق اور اس کے ساتھی بیت الحکمت میں پوری دنیا کے علمی کام کو عربی میں منتقل کر رہے تھے۔ اسی دور میں ایک مشہور باغی حمزہ خراسانی کی لوک کہانیاں میں مرتب کی جا رہی تھیں جس نے آگے جا کر داستان امیر حمزہ کا روپ دھارنا تھا۔

اس مضمون کو لکھنے کا مقصد معتزلہ کی مذہبی تشریح کو پیش کرنا نہیں، بلکہ ان کے علمی اور سائسنی ترقی کے کام کو سامنے لانا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ان کے مذہبی عقائد پر بات کرنا ایک علمی ضرورت ہے کہ ان عقائد نے نہ صرف مسلمانوں میں علمی اور تحقیقی ترقی کی بنیاد فراہم کی بلکہ ان کے اثرات آج تک موجود دور کے متجدین میں نظر آتے ہیں۔ یہ مضمون معتزلہ کی تاریخ کا بھی جائزہ لے گا اور ان کے کام کو بھی پیش کرے گا تاہم یہ سارا کام ایک ابتدائی نوعیت کا کام ہے۔ یہ اہل علم اور اہل تحقیق کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کی تاریخ کے اس علمی اور سائنسی دور پر تحقیق کریں اور اس کو دنیا کے سامنے لائیں۔ تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ یہ دور کن خصوصیات کی وجہ سے انسانی تاریخ کا ایک اہم دور شمار کیا جا سکتا ہے۔

معتزلہ کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کوئی حتمی بات کہنا آسان نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگ جمل اور جنگ صفین میں صحابہ کے ایک گروہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبداللہ بن عمر کی پیروی میں غیر جانب داری اختیار کی تھی ان لوگوں کو اہل اعتزال کے نام سے منسوب کیا گیا جو شیعان علی اور پیروکاران امیر معاویہ سے جدا اپنا تشخص رکھتے تھے۔

واقعہ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ کے بڑے بیٹے معاویہ بن یزید کے انتقال کے بعد لوگ اس کے دوسرے بیٹے خالد بن یزید کی بیعت کے لئے جمع ہوئے تو اس نے بڑی حکمت سے لوگوں کو انکار کیا اور کہا کہ اسے اس خون و کشت سے کوئی دلچسپی نہیں وہ اپنی کتابوں کے ساتھ خوش ہے۔ اس واقعہ کے بعد خالد بن یزید کا ذکر بھی اہل اعتزال میں کیا جانے لگا جو اس سیاسی آویزش کا فریق نہیں بنا تھا۔ خالد بن یزید کو پہلا مسلمان فلسفی اور سائنس دان بھی سمجھا جاتا ہے اس کو کیمیا کے علم سے گہری دلچسپی تھی۔ کہتے ہیں جابر بن حیان نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور کا کچھ عرصہ خالد بن یزید کے ساتھ گزارا تھا یہیں سے اسے کیمیا کی طرف رغبت پیدا ہوئی۔

معتزلہ کا باقاعدہ آغاز اس واقعے سے سمجھا جاتا ہے جو صوفی اسلام کی اہم ترین شخصیت جناب حسن بصری کے حلقے میں پیش آیا جب واصل اور اس کے چند ساتھیوں نے کسی علمی اختلاف کی وجہ سے اپنی الگ مجلس قائم کی۔ ان لوگوں کو اہل اعتزال قرار دیا گیا اور یہی اہل اعتزال کی بنیاد تسلیم کیا گیا۔ شروع میں یہ ایک فکری مجلس تھی جو بعض معاملات میں دوسرے مسلمانوں سے الگ ایک نقطہ نظر رکھتی تھی۔

اہل اعتزال اپنے علمی مباحث کی وجہ سے مشہور ہوئے۔ ان سے مباحث کرنے میں نہ صرف مسلمان علما کو دقت پیش آئی بلکہ غیرمسلم دنیا بھی ان کی علمی فضلیت سے مرعوب نظر آئی۔ علم سے ان کی غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے مسلمانوں میں بھی علم اور فلسفے کی طرف رغبت پیدا ہوئی۔ بنو امیہ کے دور کے آخر میں معتزلہ اس سیاسی بغاوت سے الگ نظر آئے جو کہ عباسیوں نے امویوں کے خلاف برپا کی تھی مگر عباسیوں کی کامیابی کے بعد عباسیون میں علمی دلچسپی کو پیدا کرنے میں معتزلی علما کا نمایاں ہاتھ ہے۔ عباسیوں کے عروج کے ساتھ اہل اعتزال نے بھی عروج حاصل کیا۔ مسلمانوں میں ایک علمی، فلسفیانہ اور سائسنی شوق پیدا ہوا۔ جابر بن حیان کے علمی کارنامے تو پہلے سے موجود تھے۔ منصور نے بیت الحکمت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ حنین بن اسحاق کے بیت الحکمت کا سربراہ بننے کے بعد اس میں اتنا زیادہ علمی کام ہوا کہ پوری دنیا میں شہرہ ہوا۔ الکندی اور الفارابی جیسے فلسفیوں نے ایک طرف مسلمانوں کے علمی عروج کی خبر دی تو دوسری طرف سائنسی اور علمی کتب کے تراجم نے مسلمانوں کے سائنسی عروج کی بنیاد رکھی۔ یہ علمی لحاظ سے مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔ علمی اور سائنسی لحاظ سے مسلمانوں کے کسی دوسرے دور کا اس دور سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

معتزلہ کی علمی فتوحات نے ان کے کئی مخالفین پیدا کئے جو ان کو صفحہ ہستی سے نابود و نیست کرنا چاہتے تھے۔ ان مخالفین کا استدلال یہ تھا کہ ہمارے لئے کتاب و سنت ہی کافی ہیں ہمیں ان فلسفیانہ اور سائنسی کتابوں کی کیا ضرورت ہے جس سے ہمارے عقیدے کو بھی نقصان پہنچ سکنے کا اندیشہ ہو۔



Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments