غربت اور بدحالی کے خلاف جنگ


\"mazhar

ویسے تو پاک بھارت تعلقات برصغیر کی تقسیم سے ہی کشیدہ چلے آ رہے ہیں لیکن اڑی حملے کے ردعمل میں بھارت کی جانب سے اٹھائے جانے والے غیر ذمہ دارانہ اقدامات اور اشتعال انگیز بیانات نے پاک بھارت تعلقات کو کشیدگی کی انتہا تک پہنچا دیا ہے۔ پاکستان کوعلاقائی، عالمی اور سفارتی سطح پر تنہا کرنے کے عزم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ابتدائی طور پر بھارت نے بنگلہ دیش، بھوٹان اور افغانستان جیسے علاقائی حلیف ممالک کی مدد سے پاکستان کو سارک جیسے علاقائی تعاون کے پلیٹ فارم پر تنہا کرنے کی کوشش کی۔ مودی سرکار کی جانب سے اپنے عوام کو مطمئن کرنے کے لئے لائن آف کنٹرول پر رچائے جانے والے مبینہ سرجیکل سٹرائیک کے ڈرامے نے بھی پاک بھارت سرحد پر حالات کشیدہ کر دیئے ہیں۔ پا ک بھارت تعلقات کشیدگی کی انتہائی سطح پر پہنچنے کاسب سے بڑا سبب مودی سرکار کی جانب سے پاکستان کا پانی بند کرنے کا سفاکانہ اعلان بنا ہے۔ حالیہ کشیدگی سے پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان تین باقاعدہ جنگیں اور درجنوں جھڑپیں ہو چکی ہیں لیکن اس دوران کسی بھی بھارتی حکومت نے 56 سال قبل پانی کی تقسیم کے معاملے پر ہونے والے دو طرفہ معاہدے کو سفارتی اسلحہ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان سات دہائیوں سے جاری تنازعے کی سب سے بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی بیشتر جنگوں اور جھڑپوں کی بنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہی بنا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی کی براہ راست وجہ بھی کشمیر ایشو ہی بنا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دیرپا اور پائیدار امن کے لیے کشمیر ایشو کا حل ناگزیر ہے۔ کشمیر ایشو کو ایک طرف رکھتے ہوئے دیگر دوطرفہ ایشوز کے حل اور باہمی تجارت کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششیں ماضی میں متعدد بار ناکام ہو چکی ہیں۔ دونوں طرف کی سیاسی جماعتیں الیکشن میں ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے کے خلاف ذہریلے پروپیگنڈے کا سہارا لیتی ہیں جس سے سماجی سطح پر لوگوں میں نفرت و غصہ جیسے منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کو ایک دوسرے کے خلاف سرجیکل سٹرائیک یا ایٹمی جنگ چھیڑنے کی بجائے اپنے اپنے ملکوں میں چھائی غربت اور بدحالی کے خلاف جنگ شروع کرنی چاہیے۔ پاکستان کی 8 کروڑ جبکہ بھارت کی 50 کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ دونوں ممالک کی آبادی کی اکثریت ایک طرف بنیادی صحت کی سہولتوں اور پینے کے صاف پانی سے محروم ہے تو دوسری طرف دونوں ملکوں میں ٹریفک اور آلودگی کے مسائل سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ بیت الخلاء کی سہولت نہ رکھنے والے ممالک میں بھارت پہلے تو پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ آلودگی کے شکار بدترین ممالک کی فہرست کا جائزہ لیا جائے توفہرست میں بھارت دوسرے جبکہ پاکستان چوتھے نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔ بھارت میں آلودگی کی وجہ سے سالانہ 6 لاکھ جبکہ پاکستان میں 60 ہزار اموات ہو رہی ہیں۔ بھارت نہ صرف \”کرائے کی ماؤں\” سے بچہ حاصل کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہے بلکہ بھارت دنیا بھر میں جدید غلاموں کی سب سے زیادہ تعداد رکھنے والا ملک بھی ہے۔ اسی طرح پاکستان عالمی سطح پر نہ صرف پولیو کا گڑھ سمجھا جاتا ہے بلکہ دہشت گردی کو امپورٹ کرنے کے حوالے سے بھی دنیا بھر میں بدنام ہے۔

پاکستان اور بھارت جتنے وسائل کیمیائی اور تباہ کن ہتھیاروں کی تیاری و خریداری پر صرف کر رہے ہیں اس کا نصف بھی اپنے اپنے ملکوں میں رہنے والے کروڑوں غریب ترین افراد کی معاشی و سماجی حالت بہتر بنانے کے لیے صرف کر دیں تو دونوں ممالک میں غربت اور بدحالی کا خاطر خواہ حد تک خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلحہ بنانے والی کمپنیوں اور اس کی فروخت پر انحصار کرنے والے ممالک کا مفاد اسی بات میں ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان جنگیں شروع رہیں یا کم ازکم مختلف ممالک کے درمیان جنگی ماحول بنا رہے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کو ملکی سطح پر جنگ کا چورن بیچنے والے مذہبی اور نظریاتی جنونیوں اوربین الااقوامی سطح پر اسلحے کے سوداگروں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایٹمی طاقت کے حامل دونوں پڑوسی ممالک کو امریکہ یا چین کے ساتھ دفاعی معاہدے کرنے کی بجائے کی بجائے دوطرفہ امن معاہدے کرنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ دونوں ملکوں کے حکمران طبقے کو ساحر لدھیانوی کے ان اشعار پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

آؤ اس تیرہ بخت دنیا میں، فکر کی روشنی کو عام کریں
امن کو جن سے تقویت پہنچے، ایسی جنگوں کا اہتمام کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments