افغان امن عمل: افغان حکومت کو امریکہ اور طالبان معاہدے پر تشویش


طالبان

امریکہ اور طالبان کے درمیان وفود کی سطح پر امن معاہدے کے مسودے کے اتفاق پر افغان حکومت نے ‘تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ افغان حکومت نے اس مسودے پر اپنا ردعمل منظرِ عام پر ظاہر کیا ہو۔

افغانستان کے دوم نائب صدر سرور دانش کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مسودے میں طالبان کو ‘اسلامی امارت‘ کے نام سے لکھنے کا مقصد اُنھیں ایک حکومت تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

‘طالبان کے لیے اسلامی امارت کا لفظ استعمال کرنا اُنھیں حکومت تسلیم کرنا ہے، جو افغانستان کے عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ یہ افغانستان کی خودمختاری کے خلاف اور غیر آئینی اقدام ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہماری خودمختاری چیلنچ کرے۔‘

سرور دانش کے مطابق اُنھیں امن چاہیے، لیکن ایسا امن جس میں جمہوریت کو کوئی خطرہ پیش نہ ہو۔

اگرچہ سرور دانش سے امن معاہدے سے ‘جمہوریت کو درپیش خطرات‘ کی وجوہات نہیں بتائیں لیکن کابل میں حکومتی ذرائع کے مطابق افغان حکومت اب بھی چاہتی ہے، کہ پہلے صدارتی انتخابات ہوجائیں اور بعد میں امن معاہدے پر دستخط ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

کیا امریکہ اور افغان حکومت ایک پیج پر ہیں؟

افغانستان میں امن کب آئے گا؟

افغانستان میں امریکہ کے 500 ارب لگے یا ایک کھرب؟

’افغانستان کے پانچ فوجی اڈے خالی کریں گے‘

اس سے پہلے امریکہ اور افغان حکومت دونوں اپنی ترجیجات کا ذکر بارہا کرچکے ہیں، جن میں امریکہ کی پہلی ترجیح امن معاہدہ، جبکہ افغان حکومت کی پہلی ترجیح ستمبر کے آخر میں ہونے والے صدارتی انتخابات ہیں۔

دوسری جانب امریکی جریدے ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے پر دستخط کرنے انکار کیا ہے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ ایسے معاہدے پر دستخط کریں جو طالبان کو ایک حکومت کے طور پر تسلیم کر لے۔

جریدے کے مطابق امن معاہدے کے مسودے پر افغان صدر اشرف غنی اور زلمے خلیل زاد کے درمیان اُنچی آواز میں بحث کرتے ہوئے سنے گئے ہیں جہاں خلیل زاد نے افغان صدر کو بتایا کہ اُنھیں یہ ڈیل ماننی ہوگی کیونکہ وہ افغان جنگ ہار رہے ہیں۔

اشرف غنی

امریکی جریدے ٹائمز کے مطابق امن معاہدے کے مسودے پر افغان صدر اشرف غنی اور زلمے خلیل زاد کے درمیان اُنچی آواز میں بحث کرتے ہوئے سنے گئے ہیں جہاں خلیل زاد نے افغان صدر کو بتایا کہ اُنہیں یہ ڈیل ماننی ہوگی کیونکہ وہ افغان جنگ ہار رہے ہیں۔

اُدھر افغان صدر کے ترجمان صدیق صدیقی نے بھی بدھ کو سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر کہا تھا کہ افغان حکومت امن عمل کی حمایت کرتی ہے، لیکن امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے ‘امن معاہدے‘ پر اُنھیں تشویش ہے۔

اُن کا کہنا تھا ‘افغان حکومت قیام امن کے لیے ہر اُس اقدام کی حمایت کرتی ہے، جس کے بعد مسقتل امن آجائے اور جنگ ختم ہو۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے حوالے سے افغان حکومت کو یہ تشویش ہے کہ معاہدے کے بعد ممکنہ طور پر پیش آنے والے چیلنجز پر کیسے قابو پایا جائے گا۔‘

صدیق صدیقی کے مطابق جس طرح سابق امریکی سفارتکاروں اور سینٹرز نے اس معاہدے پر تشویش کا اظہار کیا ہے، افغان حکومت کو بھی تشویش ہے اور اس معاہدے کے بارے میں مزید وضاحت چاہتے ہیں۔

افغان حکومت کی جانب سے امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر تشویش کے یہ بیانات ایسے وقت پر آرہے ہیں، جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کابل میں ہی موجود ہیں اور وہ افغان حکومت کو ممکنہ امن معاہدے سے آگاہ کررہے ہیں۔

یکم ستمبر کو دوحہ میں مذاکرات ختم ہونے کے فوراً بعد زلمے خلیل زاد کابل روانہ ہوئے اور اُنہوں نے اُسی رات کو افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔ کابل میں بعض ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان صدر اور زلمے خیل زاد کے درمیان دوسری ملاقات (جو دو ستمبر کی صبح ہوئی تھی) میں زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی کو امن مسودے کی کاپی دکھائی، لیکن اُن کے حوالے نہیں کی۔

واضح رہے کہ تین ستمبر کو اٹلانٹک کونسل ریسرچ سنٹر کی ویب سائٹ پر امریکہ کے سابق سفارتکاروں اور سینیٹرز نے ایک مشترکہ آرٹیکل میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے ہر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، لیکن ان مذاکرات میں افغان حکومت کی شرکت اور مکمل امن معاہدے سے پہلے فوجی انخلا افغانستان میں تشدد کے واقعات میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔

ان سابق امریکی سفارتکاروں میں افغانستان میں پانچ سابق امریکی سفیر بھی شامل ہیں، جو 2001 سے 2014 تک مختلف دور میں کابل میں امریکی سفیر رہے۔

یہ سابق امریکی سفارتکار اور سینیٹرز اپنے مضمون میں امریکہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر بین الافغان مذاکرات ناکام ہوتے ہیں اور امریکہ کی طرف سے افغان حکومت کو تعاون حاصل نہ ہو تو افغانستان میں سیکورٹی کی صورت حال اب سے بھی زیادہ ابتر ہوگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp