جب ناران پریوں کا مسکن تھا


کیوائی سے کوئی پانچ کلومیٹر آگے پارس نام کا ایک چھوٹا سا سٹاپ آتا ہے۔ یہاں بھی کافی ٹورسٹ دم لینے کو رکتے ہیں کہ چائے پانی کرلیں۔ ہم بھی یہاں کچھ دیر کو رکے تھے۔ یہاں سے ایک بار دوستوں کے ساتھ جیپ لے کر شاران گئے تھے۔ اتنا خوبصورت جنگل میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم کیمپنگ کا سامان ساتھ لے کر گئے تھے۔ شاران سے بھی اوپر ایک پیدل کا ٹریک ہے لیکن ہماری ہمت نہیں پڑی وہ ٹریک کرنے کی۔ سنا ہے اب یہاں لکڑی سے بنے لگژری خیمے یا ہٹس بن گئے ہیں۔

اس بار ہمارا شاران جانے کا ارادہ نہیں بنا۔ ہم نے یہاں پارس میں ہی چائے پی، تھوڑی دیر خیالوں میں شاران کے جنگل کی سیر کرتے رہے اور آگے چل پڑے۔ پارس سے آگے وادی ذرا تنگ ہوتی جاتی ہے۔ دریا کا بہاؤ تیز ہوتا جاتا ہے اور شور بڑھتا جاتا ہے۔ پارس سے آگے شینو، جرید مہانڈری اور پھر کاغان آتا ہے۔ ہمارا ارادہ تھوڑی دیر کاغان رکنے کا تھا لیکن چھوٹو کے اسرار پر ہم نے اپنا سفر جاری رکھا اور ناران سے دس کلومیٹر پیچھے ایک گلیشیر کے کنارے کھلی جگہ پر رک گئے۔

یہاں گلیشیر کے نیچے سے تیز آبشار گر رہی تھی جو سڑک کراس کرکے دریا سے جا ملتی ہے۔ یہاں ہوٹل والے نے چاپائیاں بچھائی ہوئی تھیں۔ میں تھکاوٹ کا شکار تھا، موقع غنیمت جان کر لیٹ گیا۔ بچے آبشار میں بھیگنے بھگانے لگ گئے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی مترنّم آبشار نے لوری کا کام کیا، اچھا ہوا میری آنکھ لگ گئی۔ چھوٹو نے اٹھایا۔ چائے اور گرم ٹراوٹ مچھلی کی پلیٹ لئے وہ میرے اٹھنے کی منتظر تھی۔

آج سے کوئی تیس سال پہلے میں ہنی مون ٹرپ پر ناران آیا تھا۔ ناران کا یہ پہلا سفر تھا۔ ہم گھر سے کوئی دوہفتے کے لئے نکلے تھے۔ دو ہفتے یا زاد راہ جو بھی پہلے ختم ہو جاتا ہم ٹرپ ختم کر دیتے۔ ہم براستہ مری نتھیا گلی ایبٹ آباد پہنچے تھے۔ ایبٹ آباد کا مشہور سربن ہوٹل ہمارا میزبان تھا۔ ہماری گاڑی اس قابل نہ تھی کہ اسے پہاڑ کی سیر کراتے۔ بوڑھے لوگ اور پرانی گاڑیوں کے گوڈے اس قابل نہیں ہوتے کہ پہاڑ پر چڑھ سکیں۔

ایبٹ آباد سے ایک بس کاغان تک چلتی تھی۔ ہم نے ناٹکو کی اس بس میں ایبٹ آباد سے کاغان تک سیٹیں بک کروا رکھی تھیں۔ یہ بس روزانہ صبح آٹھ بجے ایبٹ آباد سے چل کر شام چار بجے کاغان پہنچا کرتی تھی۔ ہماری بدقسمتی، صبح مرغ سحر اذانیں دیتا رہا مگر ہم خواب خرگوش سے بیدار نہ ہو سکے۔ ہمیں اس کی سزا بھگتنی پڑی۔ بس نکل گئی۔ ایبٹ آباد سے مانسہرہ گئے، وہاں سے جیپ پکڑی اور عازم سفر ہوئے۔ اس سارے عمل نے ہمارا بجٹ تہس نہس کر دیا۔

بالا کوٹ سے آگے سڑک کچی اور پتھریلی تھی۔ موڑ اتنے تنگ تھے کہ لگتا تھا جیسے جیپ سیدھی دریا میں جائے گی۔ کچی سڑک اور ہچکولے کھاتی جیپ تھی۔ ایک طرف پہاڑ تو دوسری طرف دریا۔ یوں لگتا، اب گرے، اب گرے۔ دل میں آئیت الکرسی کا ورد جاری تھا۔ ایک بار تو توبہ کرلی، پھر کبھی ہنی مون کا موقع ملا تو ادھر بالکل نہیں آنا۔ راستے میں آہ و فغاں کے علاوہ بھی کئی مقام آئے، مگر کچھ یاد نہیں۔ اللہ اللہ کرکے شام پانچ بجے کے قریب کاغان پہنچے۔

یہاں ہمارا شب بسری کا ارادہ تھا۔ یہاں ایک ہی ہوٹل تھا ”لالہ زار“۔ اس کا ایک ہی کمرہ خالی تھا جو ہمارے کام آیا۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد شام سے پہلے باہر نکلے تو ادھر ادھر دیکھا۔ ساری تھکان دور ہو گئی۔ جنت نظیر وادی کاغان اپنے حسن و جمال سے بھر پور ہمارے سواگت کو تیار کھڑی نظر آئی۔ ہم دور تک آبشار کے ہچکولے کھاتے گیت گاتے شفاف پانی کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے رہے۔ چاند نکل آیا تھا اور وادی بقعہ نور بنی ہوئی تھی۔ ہم نے سڑک کنارے ایک ہوٹل سے کھانا کھایا اور پیدل واک کرتے ہوٹل لوٹ آئے۔ تیس سال سے کاغان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، سوائے اس کے کہ سڑک کے دونوں اطراف کچھ دکانیں بڑھ گئی ہیں۔ وہی دوتین پرانے ہوٹل۔ لوگ دراصل کاغان میں رکتے نہیں کیونکہ ان کی منزل ناران ہوتی ہے جو اب ایک شہر کا روپ دھار چکا ہے۔

تیس سال پہلے سیاح اتنی تعداد میں کاغان نہیں آتے تھے جتنے اب آ رہے ہیں۔ اس زمانے کے سیاحوں کا آخری سٹاپ کاغان ہوا کرتا تھا۔ اسی لئے وادی انسانی چیرہ دستیوں سے کسی حد تک محفوظ تھی۔ ہم اس ہنی مون ٹرپ میں صبح آٹھ بجے جیپ لے کر کاغان سے نکلے تھے۔ ہماری منزل ناران سے اوپر جھیل سیف الملوک تھی۔ قدرت کے اس عظیم معجزے کو دیکھنے کے لئے کاغان سے ہی جیپ لینی پڑتی تھی۔ کاغان سے ناران کوئی بائیس کلومیٹر دور دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ، کاغان کی نسبت زیادہ پھیلی ہوئی وادی ہے۔

راستے میں لینڈ سلائیڈ کے پتھر اور گلیشیر جیپ کے علاوہ صرف گدھوں یا گھوڑوں کو گزرنے کی اجازت دیتے تھے۔ ناران میں سوائے ٹی ڈی سی پی ہٹس کے، اس وقت ایک بھی ہوٹل نہیں تھا۔ صرف کیمپنگ کی جا سکتی تھی۔ مہم جوئی کے شوقین لوگ اپنا کیمپنگ کا سامان ساتھ لے کر آتے تھے۔ کاغان سے بھی سارا سامان مل جاتا تھا۔ ناران کبھی خوبصورت ہوا کرتا تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب انسانوں نے ناران پر حملہ نہیں کیا تھا، اور ناران صرف پریوں کا مسکن تھا جو بلا خوف و خطر جھیل کے پانی میں نہانے اترا کرتی تھیں۔ صنوبر اور دیودار کے درختوں پر کسی نے کلہاڑے نہیں چلائے تھے۔ گلیشیر اپنی مرضی سے دھوپ کے مزے لے کر پگھلا کرتے تھے اور ان کا رنگ گاڑیوں کے ڈیزل اور دھول سے مٹیالا نہیں ہوا کرتا تھا۔ پرندے اپنی مرضی سے چہچہاتے اور مچھلیاں اپنی مرضی سے دریا میں تیرا کرتی تھیں۔

۔ یہ آخر اپریل کی ایک صبح کا ذکر ہے، جب میں نئی نویلی دلہن کے ساتھ جیپ پر ناران پہنچا تھا۔ جھیل سیف الملوک روڈ کے اطراف برف کا راج تھا۔ جیپ تقریباًآدھا سفر طے کر چکی تھی جب آگے جانے سے انکاری ہوئی، کہ آگے جیپ کا بھی راستہ نہیں تھا۔ ایک خچر نما گھوڑا کرائے پر لیا کہ دستور وقت تھا۔ اور لوگ بھی گھوڑوں پر سوار آگے جا رہے تھے۔ کمزور دل خواتین و حضرات جھیل دیکھنے کی حسرت لئے واپس ہو رہے تھے۔ کالج کے زمانے سیکھی گھڑ سواری کچھ کام آرہی تھی۔

آگے آگے گھوڑے کا مالک بطور گائیڈ ہمارے ساتھ تھا۔ وہ مسلسل ہمیں شہزادی بدر اور سیف الملوک کی داستان سنا رہا تھا۔ بیگم کا دل کانپ رہا تھا مگر ہم آہستہ آہست برف کے اوپر گھڑ سواری کے مزے لیتے ہوئے جھیل کے قریب ہو رہے تھے۔ دل کی دھڑکن کو سکون اس وقت ملا جب ہم جھیل سیف الملوک پہنچ گئے۔ جھیل ابھی تک کئی مقامات پر برف میں ڈھکی ہوئی تھی۔ ملکہ پربت کی ہیبت نے سحر طاری کیا ہوا تھا۔ اتنا سحر زدہ ماحول، اتنی پراسراریت اس سے قبل مشاہدے میں نہ آئی تھی۔

سیفالملوک واقعی قدرت کا انمول تحفہ، حیرت انگیز عجوبہ اور ایک معجزہ ہے۔ اللہ کی قدرت کو قریب سے دیکھنا ہو تو سیفالملوک دیکھ لیں۔ ٹھنڈ بہت زیادہ تھی برفانی ہوا کا ہمارے پاس تدارک نہیں تھا۔ تھوڑی دیر سرد ہوا کے مزے لیتے رہے۔ جب کان اور ناک سرخ ہوئے اور ہاتھ دستانوں کے اندر بھی ٹھٹھرنے لگے تو واپس ہوئے مگر ایک عرصے تک دل وہیں اٹکا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).