دلتوں میں تعلیم کا بڑھتا رجحان: کیا انڈیا کے دلت اور اعلیٰ ذات ایک میز پر آ پائیں گے؟


امبیڈکر کا مجسمہ

انڈیا میں دلتوں میں تعلیم کا رجحان بڑھ رہا ہے

انڈیا میں جہاں دفاتر اور تعلیمی اداروں میں ذات پات کی بنیاد پر تعصب یا امتیازی رویے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں وہیں دلِت نوجوان اب تعصبی روایات کو چیلنج بھی کر رہے ہیں۔

اسی سال مئی کے مہینے میں گجرات کے راج کوٹ ضلع میں ایک اجتماعی شادی میں دلِت لڑکے گھوڑے پر سوار ہو کر اپنی بارات لائے جو کہ ابھی تک صرف اعلی ذات کے دلھوں کا حق سمجھا جاتا تھا یعنی دلتوں کو اپنی بارات گھوڑے پر لانے کی اجازت نہیں تھی۔

چھوٹی ہی سہی لیکن اپنے آپ میں یہ اہم تبدیلی تھی حالانکہ اس واقعے کے بعد علاقے میں کشیدگی ہو گئی اور شادی میں پولیس کا تحفظ مانگا گیا۔

اس اجتماعی شادی کے منتظمین میں شامل یوگیش بھاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دلت صرف یہ بات واضح کرنا چاہتے تھے کہ اب وہ کسی طرح کا تعصب یا ذیادتی برداشت نہیں کریں گے۔

یہ بھی پڑھیے

دلت سے شادی کرنے پر ڈھائی لاکھ امداد، آمدن کی شرط ختم

‘دلت’ لفظ مٹانے سے ظلم کی تاریخ نہیں مٹ جائے گی

برہمنی نظام کو دلتوں کا جارحانہ چیلنج

فوٹو

اب دلِت دولھے گھوڑی پر اپنی بارات لے جانے کی کوشش کرتے ہیں جو ان کے لیے مممنوع تھا

انھوں نے بتایا کہ اس علاقے کے زیادہ تر دلتوں نے اچھی تعلیم حاصل کی ہے اور بڑی تعداد میں لڑکوں نے انجینیئرنگ، میڈیکل اور وکالت کی تعلیم حاصل کی ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ لوگ اپنی زندگی میں اب کسی بھی طرح کی ذیادتی یا تعصب برداشت نہیں کریں گے اور یہی ثابت کرنے کے لیے گھوڑوں پر اجتماعی بارات نکالی تھی۔

یہ واحد واقعہ نہیں بلکہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دلت گھوڑے پر بارات نہ نکالنے اور مونچھیں نہ رکھنے جیسی روایات کو توڑ رہے ہیں۔

فوٹو

دلتوں کی بڑھتی خواہشات کے سبب دلتوں اور غیر دلت فرقوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے

دلتوں اور غیر دلتوں کے درمیان کشیدگی

دلتوں کی بڑھتی خواہشات کے سبب دلتوں اور غیر دلت فرقوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر دلت تعلیم یافتہ ہیں اور دلتوں کے رہنما ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کے ان خیالات سے متاثر ہیں جس میں انھوں نے دلتوں کی تعلیم، اتحاد اور عزتِ نفس کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے جدوجہد کا پیغام دیا تھا۔

دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے مارٹن میک وان جو ایک مصنف بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تعلیم یافتہ دلِت اپنی گذر بسر کے لیے دولت مند لوگوں کے رحم و کرم پر نہیں ہیں اور اب وہ شہروں میں کام کرتے ہیں۔

ایک مثال لہور گاوں کے میہول پرمار کی بھی موجود ہے جو پچھلے مہینے گھوڑے پر چڑھ کر اپنی بارات لے کر گئے تھے۔ میہول گاؤں میں رہتے ہیں لیکن کام شہر میں کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی سے کو بتایا ’اگر ہم لوگ کماتے ہیں اور اپنی شادی پر گھوڑے کا خرچ اٹھا سکتے ہیں تو پھر ہم گھوڑے پر کیوں نہیں بیٹھ سکتے۔‘

میہول اپنے گاؤں کے پہلے دلت ہیں جن کی بارات گھوڑے پر گئی تھی۔

فوٹو

دلتوں کو اعلی ذات کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی اجازت نہیں

ایسا ہی ایک واقعہ مئی کے مہینے میں ریاست اتراکھنڈ کے ٹھری گاؤں میں پیش آیا جہاں 23 سال کے دلت جتیندر داس نے اعلیٰ ذات کے لوگوں کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی ہمت کی، جس کے بعد انھیں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

جتیندر کی ماں اور بہن ان پر ہی انحصار کرتی تھیں اور جتیندر کی موت کے بعد اب ان کے پاس صرف جتیندر کی موٹر سائیکل اور ایک پاسپورٹ سائز فوٹو بچی ہے۔

دلتوں میں بیداری کا سبب تعلیم کی جانب بڑھتا رجحان

اس طرح کی جدوجہد کے آغاز کی دو جوہات ہیں: ایک تو دلت تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دوسرے شہروں میں جا کر ان میں آگاہی بڑھی ہے۔ انڈین حکومت کی وزارت برائے انسانی حقوق کے سنہ 2016 کے اعدادوشمار کے مطابق15/ 2014 میں پہلی جماعت سے لے کر بارھویں تک دلتوں کی تعداد قومی تناسب سے زیادہ تھی حالانکہ اعلی تعلیم میں وہ قومی سطح سے کم ہیں۔

میک وان ان اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ دوسرے فرقوں کے مقابلے دلتوں مییں تعلیم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ پرانی روایات کو چیلنج کر رہے ہیں۔

اب دلت ملازمتیں کر رہے ہیں، چھوٹے موٹے کاروبار کر رہے ہیں اور سٹارٹ اپس چلا رہے ہیں۔ دلت انڈین چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز(ڈکی) نے کئی دلتوں کو کاروبار کی ٹریننگ دی ہے اور انھیں نئے کاروبار کرنے کی تحریک دی ہے۔

دائل فوٹو

دلتوں نے اب اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانی شروع کر دی ہے

کیا دلتوں کے حالات واقعی بدل سکتے ہیں؟

ڈکی کے سربراہ مِلند کامبلے نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دلتوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے ایک طویل جدوجہد کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلی ذات کے لوگ زیادہ عرصے تک دلتوں کو دبا کر رکھنے میں اب کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ اب دلت تعلیم حاصل کر رہے ہیں اب وہ گھوڑے پر بھی بیٹھیں گے اور اعلی ذات کے لوگوں کے ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا بھی کھائیں گے۔

سیاسی مبصر بدری نارائن کا خیال ہے کہ چھوٹے موٹے واقعات سے حالات نہیں بدلیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک روایات کو چیلنج کرنے کا یہ سلسلہ بڑے پیمانے پر ایک تحریک بن کر نہیں چلتا یا سیاسی پارٹیاں اسے ایک بڑا موضوع نہیں بناتیں تب تک دلتوں کے حالات نہیں بدلیں گے۔

مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ دلتوں پر مظالم کا پوری طرح سے خاتمہ ہو جائے گا۔ ان کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں دلتوں پر مظالم میں اضافہ ہوگا کیونکہ دلتوں کا ایک بڑا طبقہ اب بھی تعلیم سے محروم ہے۔

فائل فوٹو

سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ دلتوں کو اپنے حقوق کے لیے بڑی تحریک چلانے کی ضرورت ہے

کچھ سیاسی مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ ایسے واقعات کا استعمال سیاسی مفاد کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس لیے جب تک یہ ایک بڑی تحریک نہیں بنے گا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ بدری نارائن کا کہنا ہے کہ ایک دو واقعات کے بعد لوگ اور سیاسی جماعتیں انھیں بھول جاتی ہیں۔

دلِت کارکن پال دیواکر کا خیال ہے کہ بہار جیسی ریاست میں دلتوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جدوجہد تو کافی عرصے سے جاری ہے لیکن وہ میڈیا میں جگہ نہیں بنا پائی لیکن اب دلت بھی تعلیم حاصل کر کے میڈیا میں شامل ہو رہے ہیں اس لیے ایسے واقعات اب میڈیا میں آنے لگے ہیں۔

اب دلتوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کے خراب حالات کی وجہ انکی قسمت نہیں۔ وہ پرانی تعصبی روایات کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں کیونکہ اب وہ تعلیم حاصل کر کے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔

مِلند کامبلے کہتے ہیں کہ اب دلت بھی ملک کی تقری میں اپنا حصہ چاہتے ہیں اور عزت کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp