ہمارے فکری مغالطے اور رجعت پسندی


توحیدی ڈسکورس سے جڑا اسلام کا پودا عرب چھتری تلے اس وقت پنپ کر خوب پھیلا جب تشکیلِ نو پاتے عرب ریاستی مراکز کو عرب قومیت کی یکجہتی کے لیے ایک جدید مذہب کی ضرورت تھی۔ ریاست کی طرح مذہب بھی ایڈوانسڈ اور عوامی تھا اور اس نے لوگوں کو اسلامی تہذیب کی چاشنی میں وقت کی جدید فلاحی ریاست کی افادیت سے روشناس کرایا۔ پھر جلد ہی عرب اسلامی ریاستوں کی ترقی پسند تحریک کی کمان سیلف لیس لوگوں کے ہاتھ سے نکل گئی اور طالع آزما بدمعاشوں، دقیانوس مولویوں، مطلق العنان آمروں اور ان کی پیداگیر کٹھ پتلیوں کے ہاتھ آگئی۔

ترقی، روشن خیالی، انصاف پسندی، انسانی حقوق اور برابری کے خمیر سے اٹھی عوامی اسلامی تحریک جلد ہی ہائی جیک ہو گئی اور استحصالی قوتوں نے اسلامی ریاستوں کی کمان سنبھال کر اسلام کے جسم میں سے مثبت روایات نکالنا شروع کر دیں۔ عوامی اسلامی عرب تحریک نے خود کو بے پناہ نسلی تعصب، بے جاء کی قطعیت، فکری گھٹن، منفی رویوں، ظالمانہ غلبے، تشدد، استعمار، سنگ دلی، رجعت پسندی، سفاکیت، دادا گیری، خدائی فوجداری، دھونس، دھاندلی، زور، زبردستی، استعمار اور اشرافیہ کی پیداگیری سے ایک بدہییئت شکل میں بدل کر دنیا کے لیے اسے ناقابلِ قبول بنایا اور اس کی جاذبیت چھین کر اسے بے اقدار کر دیا۔

اب نامرادی کا غصہ، دنیا سے نفرت، لڑائی، فساد، حسد، فکری مغالطے اور ہمہ جہت بیزاری اس جہان سے جلد ہی ہمارا نام و نشان اور ہماری مسلم پہچان کو مٹا دے گی۔ نفسی نفسی کرتی خود غرض سی آخرت کی تیاری کے ساتھ ہی ہمیں عصرِ حاضر کی نبض پر ہاتھ رکھ کے دنیا میں ہونے والی علمی، سائنسی، صنعتی اور تکنیکی ترقی میں خاطر خواہ شمولیت کے ساتھ آئی ٹی اور نت نئی ایجادات کا محض کنزیومر نہیں کنڑیبیوٹر بھی بننا پڑے گا۔ ہمیں دوسروں کے لیے منافع بخش منڈی بننے کے ساتھ ہی اپنی جائنٹ کارپوریشنز بنا کر دنیا کے لیے دلچسپی رکھتی جدید کموڈیٹیز اور ایپس بنانا پڑیں گی۔

ابلاغ کے تمام شعبوں میں معقول انویسٹمنٹ کر کے مسلمانوں کی پازیٹیو امیج بلڈنگ اور پریگمیٹک مائینڈ سیٹ بلڈنگ پر کام کرنا ہو گا۔ تشدد، تفرقے اور دھونس پر مبنی رویوں کو ریجیکٹ کر کے امن، رواداری اور غیر متشدد رویے اپنانے ہوں گے۔ ایسا کر کے ہی ہم دنیا میں اپنے لیے عزت اور احترام حاصل کر پائیں گے۔ اپنی لیے ایک نئی اور روشن خیال مسلم پہچان اور مسلمان کی خداداد تخلیقی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں گے۔ وسائل زیادہ ہوں گے تو ہم اپنا دفاع بھی مضبوط کر سکیں گے اور دنیا میں اپنی آواز اور اثر بڑھا سکیں گے۔ اسلامی تحریک کو دنیا اور عام انسان کے لیے بنا کوئی تعصب اور دو عملی رکھے منفعت پسند بننا ہوگا۔ ورنہ دنیا بھر سے ہم اور ہمارا مذہب رد کر کے متروک کر دیے جائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).