کیوں کہ ساس بھی کبھی بہو تھی


بے بسی سے بے حسی کا فاصلہ طے کرنے والی ایک عورت جو بیک وقت ظالم بھی ہے اور مظلوم بھی۔ ہر عورت اپنی انا، عزت نفس کی بحالی اور نفس کی تسکین کے لئے نہ چاہتے ہوئے بھی ایک ایسی ظالم عورت کا روپ دھاڑ لیتی ہے جس کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے وہ ایک لمبے عرصے تک نفرت کرتی چلی آتی ہے۔ پاکستان جیسی اسلامی ریاست جس میں یونی پولر خاندانی نظام زندگی رائج ہے آج تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے

یہ نظام زندگی اس لیے رائج کیا گیا تھا تاکہ ہم اپنی اگلی نسلوں میں اپنے خاندانی روایات، تہذیب و تمدن، رسم ورواج منتقل کر سکیں مگر نہ جانے کب اس کی جگہ نسلوں میں کینہ پروری ”منافقت جھوٹ، بناوٹ منتقل کرنے نے لینا شروع کردی اس کی وجہ محض صرف ساس کا کردار ہی نہیں بلکہ وہ عورت کا وہ فطرتی رویہ ہے جس میں وہ خود کو ایک حاکم کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی ہے اور ہمیشہ یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہی ساس زیادہ ظالم عورت کا روپ دھاڑتی ہیں جو خود اپنی جوانی میں کسی ایسی ہی عورت کے ظلم کا شکار ہوئی آتی ہے۔

وہ یہ بات نظر انداز کر دیتی ہے کہ کہ اگر وہ خود ایسی ذہنی ابتری کی حامل عورت کی جاہلیت کی بھینٹ چڑھتی رہی ہے تو وہ خود کو اس قابل بنائے کہ کوئی دوسرا اس کی وجہ سے اسی طرح کے ذہنی تشدد کا شکار نہ ہوسکے۔ یہ بات آج تک ہر مرد کے لئے ناقابل فہم ہی رہی ہے کہ وہ کیا حالات ہیں جو عورت کو ایسی درندگی پر مجبور کر دیتے ہیں۔

ایک عورت جیسی مقدس ہستی جس کے پاؤں تلے جنت، ماں تو سراپا رحمت، بہن اور بیوی کی شکل میں سراپا محبت و شفقت ہوتی ہے وہ کیسے ساس کے کردار میں ڈھلتے ہی اپنی فطرت کو کہیں پڑے چھوڑ کر اپنی حاکمیت کو ثابت کرنے پر بضد ہو جاتی ہے۔

یہ بات نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ عورت محض اس وقت تک مظلوم ہے جب تک اس کے پاس ظلم کرنے کا اختیار نہیں۔ عورت اپنی زندگی میں بہت سے رشتوں کو کو برتتی چلی آتی ہے خاص کر شادی کے بعد عورت کا محض گھر ہی تبدیل نہیں ہوتا بلکہ پوری زندگی کی ترتیب الٹ کر رہ جاتی ہے۔ مگر ان حالات میں آس پاس موجود لوگ اور قریبی رشتہ دار اس کے ساتھ مخلصانہ رویہ نہیں رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں خاندان میں آنے والی نئی بہو کو معاشی، معاشرتی، سماجی ہرلحاظ سے کمتر ثابت کرنے کے لئے اس کو ذہنی تشدد کا نشانہ بناتے ہی چلے آتے ہیں۔ تشدد کی یہ قسم جسمانی تشدد کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہے اور اس سے لگنے والے گھاؤ تاحیات کے لیے عورت کے وجود کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا ضرور ہوتا ہے جب اللہ زہر گھولنے والے ان تمام کھوکھلے رشتوں کی حقیقتوں پر پڑے منافقت کے پردے ہٹا دیتا یے

اور اس حاکم عورت کو یہ بات اس وقت سمجھ آتی ہے جب بہو کا پلڑا اس کے آگے بھاری ہونا شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ اس وقت اس حاکم عورت کو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس کی گھریلو اور خاندانی زندگی میں زہر گھولنے اور تباہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار انہیں نزدیکی رشتہ داروں کا تھا۔ صرف وقتی انٹرٹینمنٹ کے لیے لوگ ساس اور بہو کی زندگی کے بہترین سالوں کو جلاکر کا خاک کر ڈالتے ہیں اور یہ رویہ اس قدر شدید ہے کہ روح کو نڈھال کر چھوڑتا ہے

پاکستان میں ایک سروے کے مطابق 90 فیصد ساسوں کا رویہ اپنی بہو کے ساتھ مکمل طور پر ایسا ہی جابرانہ ہے۔ باقی 9 % ساسیں جنہوں نے صدیوں سے پہیے کی طرح چلتے ہوئے اس نظام کو ٹھوکر مار کر اپنی بہووُں کو بیٹیوں کے طور پر اپنانے کی کوشش کی ہے وہ خود بہووُں کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہیں۔

باقی ماندہ تا 1 %ساس بہویُیں وہ خوش قسمت عورتیں ہیں جو ایک ساتھ ایک چھت کے نیچے نہیں رہتی ہیں۔ کبھی کبھار کی ملاقاتوں اور فاصلوں نے اس رشتے میں موجود حسن اور عزت احترام کے عنصر کو ان کی زندگیوں میں ابھی بھی قائم دائم رکھا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).