آؤ سچ بولیں!


منٹو نے آؤ کے تسلسل سے کئی کہانیاں لکھیں۔ آپ نے بھی ضرور پڑھی ہوں گی۔ کبھی سوچا تھا شاید میں بھی کسی تسلسل میں کوئی کہانی لکھ ڈالوں۔ منٹو صاحب نے بار ہا کہا۔ وہ تو سچ بیان کرتے ہیں سچ جو لوگوں کو کڑوا لگتا ہے۔ سچ بھی یہی ہے کہ منٹو صاحب فحش نہیں لکھتے تھے سچ لکھتے تھے۔

سچ کی حقیقت ہے بھی کچھ ایسی ہی۔ کڑوی ہوتی ہے لیکن درحقیقت حقیقت شناس ہوتی ہے۔ حقیقت جس کو سننا، سنانا یا کہنا برا یا برائی نہیں ہے بلکہ حقیقت سے آگہی اور رو شناسی ہے اگر اس میں ذاتی مفاد شامل نہ ہو۔ ایک اچھے معاشرے کی تخلیق بھی اسی صورت رکھی جا سکتی ہے جب کہ بھلے برے کا پتہ ہو۔ آنکھ چرانے سے سچائی نہیں بدلتی تو منٹو صاحب نے بھی آنکھ نہیں چرائی۔

میں بھی سچ لکھ رہی ہوں کہانی پھر کبھی سہی!

یہ منٹو کا دور نہیں جہاں فحاشی نے شرافت کا لبادہ اوڑھ کر شرفاء اور معززین پیدا کر رکھے تھے۔

اب کا دور کامیابی کے بام پر ہے تو لبادہ اور۔ اور سچ یہ ہے کہ ہمارا تخلیق کردہ نام نہاد بہترین معاشرہ مزید ٹوٹ پھوٹ کے بعد محض لفظ کامیابی کے پیچھے بھاگ رہا ہے کامیاب معاشروں کی دیکھا دیکھی، منٹو کے بوسیدہ معاشرے کی طرح بھرم سمیٹے بھاگ رہا ہے۔ اس لئے اب یہ معاشرہ ذہنی مفلوج پیدا کر رہا ہے۔ اور مفلوج بھی کہاں؟ ہر شعبہ زندگی میں۔

جی! ہر شعبہ ہائے زندگی میں۔

کامیابی، انسانیت کا گلا گھونٹے کو تیار ہے۔ یہ ہے آج کے معاشرے کی حقیقت۔ لیکن ابھی ذکر صرف ایک طرح کی مفلوک الحالی کا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کا یہ پاکستانی معاشرہ مکمل طور سے غربت کی آبیاری کرنے میں معروف ہے۔ جب کہ غریب، غریب تو ہے ہی لیکن اس کی معمولی سی اخلاقی لغزش کسی بھیانک جرم کی طرح اس کی زندگی اس کے میلے ہاتھوں سے چھینی ایسی میلی قمیض ہے جو نہ بک سکتی ہے نہ اس غریب کے ساتھ دفنائی جا سکتی ہے۔

جس پر لکھا ہے ”اپنا ٹائم بھی آئے گا“ یہ بنیان پر لکھا جملہ کسی ذہنی مفلوج لڑکے کی طرح صرف منہ چڑاتا۔ پل پل ہماری ذہنوں کی پسماندگی کو چڑا کر اپنی موت کو آواز دے رہا ہے البتہ حساس اور ہمدرد لوگوں کا ذہن نچوڑ رہا ہے اور پے در پے نچوڑ رہا ہے۔ آہستہ آہستہ سہی لیکن سانحات کا تسلسل ان کو بھی بے حسی کے اس جنگلی معاشرے میں دھکیل رہا ہے جہاں بڑی تعداد میں ذہنی مفلوج پہلے ہی آباد ہیں جو ہمدردی کب کی تیاگ چکے یا پیدا ہی بے حس ہوئے۔ یہاں غریب کی غربت کا یہ حال ہوچکا کہ وہ کسی بھی معمولی حیثیت والے کے سامنے چور بنا اسی کے ہاتھوں اپنی زندگی ہار رہا ہے اب متمول، سفید پوش گھرانوں میں اخلاقیات کی جگہ ترقی و کامیابی آگئی ہے۔

گزشتہ چند ہفتوں سے میں امریکہ میں ہوں۔ یہاں روز مرہ کے معمولات دیکھ کر روز لکھنے کا سوچتی ہوں۔ پھر اپنے خیالات جھٹک دیتی ہوں۔ کہ کس کے لئے؟ کیا فائدہ۔

دوست اکثر تصاویر دیکھ کر مشورہ دیتے ہیں کہ سفر نامہ لکھوں خوبصورت تصاویر سے مزین دلچسپ سفر نامہ۔ خیال مجھے اچھا لگتا ہے۔ حقیقتاً مجھے لگتا ہے کہ سفرنامے کا دور پاکستان کے وجود سے شروع ہوکر مستنصر حسین تارڑ کے خوبصورت سفر ناموں کے ساتھ تک تمام ہو جاتا ہے، خوب سیرت معاشرے کے لئے خوبصورت سفرنامے۔

اب ہم سفر نامے پڑھ کر کیا کریں گے؟

خوبصورتی پاکستان میں کم ہے کیا! ہم فورا خوبصورتی کا موازنہ شمالی علاقاجات سے لے کر ساحلی پٹی پر ڈوبتے سورج کے حسین مناظر سے پیش کرنے لگیں گے اور بلا شبہ ہم اس میں بجا ہیں درست ہیں۔ لیکن کیا یہ خوبصورتی انسان کی پیدا کردہ ہے؟

کیا اس سے انسان طبعا نیک سیرت ہو جاتا ہے؟

نہیں نا۔ انسان کی خوبصورتی کا عمل اخلاق اور قوم کی تعمیر سے شروع ہوکر اس کی نسلوں میں منتقل ہوتا ہے۔

قدرتی مناظر میں ہم مالا مال سہی۔ لیکن اخلاقیات میں اب تک منٹو صاحب کی لکھی فحاشی سمیٹے مزید پستی کا سفر کر رہے ہیں۔ اس پستی میں مسلسل گرتے جارہے ہیں۔

ہمیں تو اخلاقیات کا سفر شروع کرنا چاہیے۔ جو کبھی ہماری شان تھا لیکن کم از کم دو دہائیوں سے یہ شان دار سفر روز مر رہا ہے۔ روز بے حسی کا معاشرہ پروان چڑھ رہا ہے۔ بدصورتی بد اخلاقی پروان چڑھ رہی ہے۔

میں بھی منٹو کی طرح سچ لکھ رہی ہوں۔ تارڑ صاحب کی طرح سفر نامہ ہی تحریر کر رہی ہوں۔ اپنے معاشرے کی گرتی اقدار کا سفر نامہ جس کا شکار نوجوان اور ہدف غربت پیدا کرنا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).