خدارا! سب کو مسلمان رہنے دو


جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے۔

پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، جہاں پر اس وقت بیس سے زائد مختلف اسلامی جماعتیں لوگوں کو دین اسلام کی تبلیغ کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ بہت خوش آئند ہے۔ اس میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے کہ ان جماعتوں کی بہت سی خدمات ہیں۔ یہ لوگوں کو دین سکھاتے ہیں، حفاظ کرام بناتے ہیں علماء اور مفتیان کرام بناتے ہیں۔

طریقہ کار تھوڑا بہت مختلف ہو گا مگر مقصد سب کا یہی ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق دین کی رہنمائی کرنا۔ اس میں سے بیشتر جماعتوں کے طالبعلم پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ ہیں۔ مگر چند اسلامی جماعتیں ایسی بھی ہیں جن کی تربیت میں شاید ان کو سکھایا ہی یہی جاتا ہے کہ آپ لوگوں کو سرٹیفکیٹ بانٹ سکتے ہو کہ کون مسلمان ہے، کون کافر، کون شرک کرتا ہے جبکہ کون جنتی ہے اور کون جہنمی ہے۔

ہمارے پیارے نبیؐ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ آپؐ بھی دین کی دعوت کا کام کرتے رہے ہیں، لیکن آپؐ نے کبھی کسی کو زبردستی مسلمان کرنے پر زور نہیں دیا۔ حضور پاک کی عمر چالیس سال تھی جب آپؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور نبوت کا اعلان ہوا۔ مطلب پہلے چالیس برس آپ نے اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں کو متاثر کیا، لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے اور کافر بھی اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھواتے تھے۔

مگر ہمارے ہاں اسلامی ملک ہونے کے باوجود اگر ملک کی سب سے بڑی عدالت آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دے دیتی ہے تو ملک کی بیشتر اسلامی جماعتوں کے کارکن ججوں کو کافر کہنا شروع کردیتی ہیں۔ کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہے کہ ایک مظلوم کو بے گناہ قرار دینے پر خطرے میں پڑ جائے گا۔ جبکہ حضور پاک نے تو غیر مسلموں کے بھی حقوق کی تحفظ کی بات کی ہے۔

بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خدارا کسی بھی مسلک کے پیرو کار کو مسلمان رہنے دو۔ وہ اگر عقائد کی بنیاد پر آپ کے مسلک سے تھوڑا مختلف ہے یا کوئی اختلاف رکھتا ہے تو آپ کو کیا ضرورت ہے اس پر کفر و شرک کے فتوے لگاؤ یا زبردستی اپنے مسلک میں لے کر آو۔ اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں کو متاثر کرو نا کہ زبردستی ان کو مسلمان کرو۔ اور نا ہی کافر اور ملعون کہہ کر ان کو مارنا شروع کردو۔

جیسا کہ اگر کسی خاص مسلک کے لوگ ربیع الاول میں جشن عید میلادالنبی مناتے ہیں۔ تو ان کو اپنے مسلک کے مطابق منانے دو۔ ان کا نبی پاکؐ سے محبت کے اظہار کا طریقہ کار ہے یا اگر کسی مسلک کے لوگ تین دن کے لیے یا چالیس دن کے لیے گھر گھر جا کر نماز کی دعوت دیتے ہوں تو آپ کو کیا ہے یہ ان کی محبت کا طریقہ کار ہے۔ اسی طرح محرم میں اہل بیت کی یاد میں مجلس یا میلاد کرنے والوں سے کیوں اعتراض کرتے ہو، یہ ان کا اہل بیت سے محبت کا اظہار ہے۔

اسی طرح جاوید غامدی صاحب کا نقطہ نظر آپ کے علماء سے اگر تھوڑا مختلف ہے تو اسے بھی برداشت کریں۔ سب لوگ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق سمجھ سکتے ہیں۔ جبکہ ان کے خلاف چند علماء کرام نے تو تحریک چلائی ہے کہ ”غامدی کو مت سنو اسے سننا جائز نہیں ہے“ فلاں فلاں، اس سے بھی پرہیز کریں۔

اور باقی بھی سب مسالک کی جماعتوں کو اپنے ماننے والوں کو یہ سکھانا چاہیے کہ ہر ایک کی سوچ، رائے اور عقائد کا احترام کیا جائے اور سب کو اور کچھ نہیں تو بس مسلمان تو رہنے دو نا کہ شرک و کفر کے فتوے لگا کر جنت جہنم کے ٹھیکیدار بن جاؤ۔ کیوں کہ ایک پرامن معاشرہ کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ سب کو مانتے ہوئے مسلک سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).