بادشاہ سلامت کی داڑھی اور قبائلی انضمام کی کہانی


ایک بادشاہ سلامت کی عادت تھی کہ جو بھی سائل اس کے پاس اتا تو وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتا اور جتنے بال بادشاہ سلامت کے ہاتھ میں آتے اُتنی ہی اشرفیاں سائل کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ ایک دن ایک خانہ بدوش بادشاہ تک رسائی میں کامیاب ہوا تو بادشاہ سلامت نے حسب عادت داڑھی پر ہاتھ پھیرا لیکن ایک بھی بال بادشاہ سلامت کے ہاتھ نہیں آیا۔ بادشاہ نے خانہ بدوش سے کہا کہ ”یار آپکی قسمت تو بہت خراب ہے۔“ خانہ بدوش نے دروازے کی طرف مڑتے ہوئے کہا کہ ”حضور داڑھی بھی آپکی ہے اور ہاتھ بھی آپکا ہے اور قسمت میری خراب ہے، میری قسمت کا حال تو تب دیکھ لینا جب داڑھی آپکی ہو اور ہاتھ میرا ہو۔“

قبائلی علاقوں کی محرومیوں کی وجوہات بھی کم و بیش ایسی ہی ہیں کہ ان کی تقدیر کے فیصلے وہ لوگ کررہے ہیں جن کو قبائلی علاقوں کے بارے میں سرے سے کوئی علم ہی نہیں۔ یہاں لوگوں کی زندگی کا معیار کسی نے قریب سے نہیں دیکھا۔ شام کو ٹی وی ٹاک شوز پر جو مفکرین قبائلی علاقوں کے بارے میں اپنی قیمتی آرا کا اظہار کرتے ہیں صبح وہی فیصلہ سازی کے عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر انضمام کو ہی لیجیے! کسی نے قبائلی عوام سے پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ”بھئی اپ لوگ کیا چاہتے ہو؟“

بس کچھ لوگوں کی میڈیا پر چیخ و پکار کو سارے قبائلی عوام کی آواز سمجھ کر بیک جنبش قلم انضمام کا فیصلہ صادر ہوا لیکن ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود انضمام کا ابھی تک کوئی خاص رُخ متعین نہ ہو سکا۔ بیانات اور اعلانات کی حد تک بات بالکل ٹھیک ہے اور قبائلی علاقوں میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں لیکن عملی طور پر قبائلی عوام اُسی پسماندگی اور درماندگی کی دلدل میں پھنسے ہو ئے ہیں۔ یہاں ترقی یہ ہوئی ہے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کو ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ پولٹیکل ایجنٹ کو اسسٹنٹ کمشنر کا نام دیا گیا۔

خاصہ دارفورس اور لیویز کو پولیس قرار دیا گیا لیکن نہ تو کوئی میرٹ نظر آیا اور نہ ہی ان بیچاروں کی مراعات پولیس جیسی ہوئیں۔ جو صوبیدار تھا اس کو ایس ایچ او بنایا گیا اور جو صوبیدار میجر تھا اس کو ڈی ایس پی لیکن حال یہ ہے کہ پشاور اسلام آباد میں کوئی انہیں ڈی ایس پی ماننے کو بھی تیار نہیں۔ ہمیں بڑی خوش فہمی تھی کہ انضمام کے بعد پرمٹ سسٹم سے نجات ملے گی لیکن بدستور قبائلی علاقوں کو جانے والے راستوں پر راہداریوں اور چیکنگ کے نام پر ہر گاڑی سے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے جس کا تیل عوام سے نکالا جاتا ہے۔

ویسے خوش فہمی تو ہمیں یہ بھی تھی کہ انضمام کے بعد شاید ہمارے تعلیمی اداروں کی اصلاح کا عمل شروع ہوجائے گا۔ سیٹل ایریاز کی طرح یہاں بھی سرکاری سکولوں میں معیاری تعلیم کا عمل شروع ہوگا۔ اساتذہ کو ڈیوٹیوں کا پابند بنایا جائے گا لیکن یقین جانئیے کہ صورتحال اصل میں پہلے سے زیادہ بد تر ہے۔ ترقیاتی کاموں کو ہی لیجیے پہلے ہر سال 25 ارب کا فنڈ براہ راست وفاق سے فاٹا کو ملتا تھا اب بقول سرکار کے اسی فنڈ کے علاوہ ایک سو ارب روپے ہر سال قبائلی علاقوں کی ترقی پر خرچ کیے جائیں گے لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کون سے قبائلی علاقے میں کہاں کہاں پر مجوزہ فنڈز کے ذریعے منصوبے شروع کیے گئے ہیں؟

ہمیں تو غلط فہمی یہ بھی تھی کہ انضمام کے بعد ہم یتیم نہیں رہیں گے اور کوئی تو ہوگا جو ہمارا حال چال پوچھے گا اور اس طرح شاید ہمیں بیس بیس گھنٹے لوڈ شیڈنگ سے نجات ملے گا لیکن اب تو بیس کی بجائے بائیس گھنٹے کو لوڈشیڈنگ کا تخفہ مل رہا ہے بلکہ بلنگ کا عمل بھی ساتھ ساتھ جاری ہے۔

ہم جب فاٹا میں تھے تو ہمارے ہسپتالوں میں مفت ادویات وافر مقدار میں مل رہی تھیں لیکن اب کوئی آکر ہمارے ہسپتالوں کی حالت زار کا نوٹس لے۔ تمام صاحبان اقتدار نے قبائلی علاقوں کے دورے بھی کیے اعلانات بھی کیے مگر نتیجہ وہی خانہ بدوش کی قسمت کا ہی نکلا ہے۔ مجھے بڑی خوش فہمی تھی کہ شاید انضمام کے بعد ہنگامی بنیادوں پر یہاں قانون کا راج ہوگا۔ ایف سی ار کے اندھیرے شاید چھٹ جائیں لیکن ابھی تک حکومت نہ تو سی پی سی اور سی ار پی سی لاگو کرنے میں کامیاب ہو ئی ہے اور نہ ہی یہاں سابقہ ایف سی ار رہ گیا ہے۔

کبھی رواج ایکٹ کے ڈرامے تو کبھی کچھ کبھی کچھ۔ لگتا ہے حکومت کو خود بھی کوئی سمجھ بوجھ نہیں کہ کریں تو کیا کریں۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ اقتدار کے مسند نشینوں کو انضمام کا عمل مینڈک تولنے جیسا لگ رہا ہے۔ اُصولاً تو ہونا یہ چاہیے کہ جب آپ کسی سے کوئی چیز لیتے ہیں تو اس کے بدلے میں دوسری کوئی اچھی چیز انہیں دیں لیکن یہاں تو پہلے کے مقابلے میں ابھی تک کوئی نعم البدل ہی نہیں ملا ہے اور اگر سچ پوچھئے تو عدالتی نظام سرے سے قبائلی عوام کا مسئلہ ہی نہیں تھا کیونکہ یہاں تنازعات کے حل کا میکنزم پہلے سے موجود تھا جس کو سیٹل ایریاز میں بھی لاگو کیا جا رہا ہے تو بظاہر لایعنی مشق کے معنی کیا ہیں۔

انضمام ہوا اچھی بات ہے ہم تبدیلی کے مخالف ہرگز نہیں لیکن تبدیلی وہ جس سے مثبت اثرات سامنے آئیں اگر انضمام کے بعد کی پہلی والی حالت بلکہ اس سے بدتر اس لئے کہ عام آدمی کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا ہے تو ہم تو یہی کہیں گے کہ بخشو بی بلی، چوہا لنڈورا ہی بھلا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).