ڈاکٹر خالد سہیل، یہ تم نے کیا کہہ دیا؟


واہ! اے ذی شعور، ذی وقار شخص، لذت لمس اور لذت وصل کو دنیا تو نئے رنگوں میں رنگ ہی رہی ہے، تو نے اس راز کو کھول کر اسے دل و دماغ کے لئے مرغوب خاطر بنا دیا۔ انسان کی جرات گناہ کی داد تو فرشتوں کو بھی الٹے لٹک کر دینا پڑی، تم نے تو اس کے معنی ہی بدل دئیے۔ احساس گناہ کا خوف تم نے ہوا میں اڑا دیا۔ لیکن یہ کیا کہہ دیا، ”صرف ذہنی بالغوں کے لیے۔ “وہ تو پہلے ہی حدود کی ریکھاؤں کو نئے انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ وہ تو قبول کر لیں گے۔ لیکن تم نے تو بالواسطہ نابالغوں کو للکار کراودھم مچا دیا ہے۔ ان کا علم صرف پونگا پنتھی کتابوں کے کم علم، نادان علما کی غیر سائنسی تشریحا ت تک ہی محدود ہے۔

وہ کیا جانیں  ثواب طاعت وزہد!

اور یہ بھی یاد رکھنا یہ لوگ چند سو پورے چاند کی راتیں بن جاگے گزارنے کو سن بلوغت پار کرنا کہتے ہیں، حالانکہ وہ ابھی اس حد فاصل کے قریب بھی نہیں پہنچے۔ یہ لوگ ارمغان حسن کو کیا جانیں، یہ عشق کی بھید بھری بجھارت کیا بوجھیں۔ یہ لوگ تو مذی و ودی کی الجھنوں میں الجھے ہوے ہیں، ویریہ کے متعلق یہ خیالات قبول کر لیں گے؟ خود لذتی پر بھی قدغن لگانے والوں کے لئے حدیث عشق کا یہ بیان کن عذابوں کا دروازہ کھولے گا۔

ان کی سماعت ماؤف کر دے گا اور ان کے دہان در حد مقدور کھول دے گا۔

ان کی سوچیں تو ناپاکی اور پلیدی تک محدود ہیں۔

عظیم استاد، ”اردو ادب کی مختصر تریں تاریخ“کے مصنف اور عظیم کہانی نو یس، ڈاکٹر سلیم اختر’حاتم اور راز کوہ ندا‘ کا ماجرا بیان کرتے کرتے حاتم کو ایک ایسے ہندوستانی برہمچاری کے پاس لے جاتے ہیں جو صرف ایک بوڑھے بندر کے ساتھ ملک ملک پھرتا اس کے وطن پہنچ جاتا ہے۔ وہ جب اس سیاہ تن، منڈے سر، پچکے گالوں، سوکھے بازوؤں اور مرجھاے ہاتھوں والے کا ہاتھ تھام کراحوال دریافت کرتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی معمولی انسان نہیں۔ قبیلہ طے کا جری جوان، حاتم، جب اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے تو ان کی آگ کی تاب نہیں لا سکتا۔ اور لرز کر ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اسے مہمان بن کر چنداں غریب خانے پر قیام کی دعوت دیتا ہے۔

ایک رات دونوں زندگی، اس کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ ہندوستانی کہتا ہے، ”میں کل ودیا تو نہیں دے سکتا البتہ تجھے اس کے کچھ رنگ بتاتا ہوں۔ ہمارے گن دانوں نے پرتش اور استری کی بھاؤناؤں کو نو رسوں میں بانٹ دیا ہے۔ وہ ہیں، شرنگارا (محبت، جنس) شانتی (سکون) رودرا (غصہ) ویرا (شجاعت) اوبھاشا (استعجاب) ہنسیا (مزاح) کرونا (رحمدلی) بھیانکا (خوف) اور ردھ بھوتا (تحیر خیزی)۔ آکاش اور پرکاش، پرتھوی اور پراکرتی بیچ جو انیک (منفرد) رنگ دکھائی دیتے ہیں سب اسی کارن ہیں۔ ان کے باہر کچھ نہیں۔ “

”اور اگر ہو تو۔ ۔ ۔ ۔ ؟“

 ”مایا ہے۔ “

حاتم سوال کرتا ہے، ”مگر ان کا کوئی مرکز یا بنیاد بھی تو ہوگی، وہ کیا ہے؟“

ہندوستانی بولا، ”حاتم میرے گرو نے مجھے بتایا اور میرے گرو کو اس کے گرو نے بتایا۔ ۔ ۔ اور میں تجھے بتا رہا ہوں، اصل طاقت جیون جل میں ہے۔ “

یہ۔ ۔ ۔ یہ جیون جل کیا ہے؟

تمہاری بھاشا میں ایک شبد ہے آب حیات، جیون دینے والا پانی، مرتیو سے مکت کرنے والا۔ “

ہے تو، مگر اس کا جیون جل سے کیا تعلق؟“

”غور نہیں کیا حاتم“ وہ پر جوش لہجہ میں بولا، ”غور کرو ہماری بھاشا میں یہی جیون جل ہے۔ “

”ہر جیو کے پاس جیون جل ہے، جب پرش اور استری بھوگ کرتے ہیں تو دونوں بیچ جو فوارہ اچھلتا ہے وہی جیون جل ہے“۔

”یہی جیون جل منش کو دوبارہ جنم دیتا ہے مگر اولاد کی صورت میں۔ مرنے کے بعد تم زندہ رہو گے مگر اپنی سنتان کے روپ میں۔

یہ ہے جیون جل، جیون شکتی کا اٹل کارن۔۔۔ اس لیے ہم شیو لنگ پوجتے ہیں۔ جیون کی طرح یہ گیان دھیان کا بھی کارن ہے۔ اس سے کون کس طرح کام لیتا ہے، اسی سے جیون کتھا میں رنگ بھرا جاتا ہے۔ یہی تانترک ودیا ہے۔ “

یہ جیون جل، یہ آب حیات، یہ انمول شکتی، یہ باعث وجود نسل انسانی، یہ مرتیو سے مکت کرنے والا۔ یہ ذکر سے ابھرنے والا، کھجور کے خوشے کی بو والی جیون دھارا کا جل ۔ قدرت نے اسی سے پرش اور استری کو مقدس تعلق میں پرویا اور اسے سفاحت (آلودگی) اور خرابی سے پاک رکھا۔ یہی انسان کو ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کرنے والا۔ یہی بطن مادر میں ’نطفہ امشاج‘ سے بڑھتے ہوے’خلق فسویٰ‘ تک پہنچ کر اشرف المخلوقات کی شکل میں ڈھلتا ہوا۔

 اسے تو صرف نظافت کے طور پر کھرچنے کا کہا گیا تھا، اسے کس نے نجس قرار دے دیا؟

ابن عقیل نے اسے نجس کہنے والے کو کہا تھا، ”میں تو اس کے اصل کو، جس سے اس نے جنم لیا، پاک قرار دینا چاہتا ہوں، اور یہ اسے نجس قرار دینے پر مصر ہے۔ “

یہ جیون جل ہے، یہی تو حیات بانٹتا ہے، یہی تو مرنے والے کو مرنے نہیں دیتا اور اسے ابدی زندگی دیتا ہے۔

کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی تھی

امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

خالد سہیل نے اسے پاک کہہ دیا تو، ہنگامہ ہے کیوں برپا؟

خالد سہیل نے درست کہا اور یہ کہ مکمل سے بہت کم کہا۔ کون ستارے چھو سکتا ہے، رہ میں سانس اکھڑ جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).