ڈیل اور ڈھیل کی باتیں: سیاسی قوتوں کی جمہوریت دوستی کا امتحان ہے


ملک میں ایک بار پھر ڈیل اور ڈھیل کی باتیں زور شور سے کی جارہی ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے دو اہم لیڈروں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو بعض مراعات کے ساتھ ملک سے باہر جانے کی پیش کش کی گئی ہے تاکہ موجودہ نظام کو کوئی سیاسی اندیشہ لاحق نہ ہو۔ اگرچہ یہ سب باتیں قیاس آرائیوں اور اندازوں کے علاوہ ’باخبر ذرائع‘ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر کہی جارہی ہیں لیکن ان کی وجہ سے تبصروں اور حکومت کے مستقبل اور ملکی سیاست کے بارے میں اندازے قائم کرنے کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ یعنی عوام کو مسلسل بے یقینی اور اضطراب میں مبتلا رکھا جارہا ہے۔ شاید یہی اس قسم کی خبریں پھیلانے کا مقصد بھی ہے۔

سوال تو کیا جاسکتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایسی خبروں کی وجہ تسمیہ بنتے ہیں اور اس سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی پہلے نواز شریف کے ساتھ جیل میں ’مقتدر حلقوں کے اہم نمائندوں‘ کی ملاقاتوں کی خبر دے کر اس سے نواز شریف، مسلم لیگ (ن)، موجودہ حکومت اور ملکی سیاست کے بارے میں اندازوں اور قیاس کے محل کھڑا کرنے والوں سے استفسار کرنا چاہیے کہ اس گفتگو اور مباحث میں جمہوریت اور ملک کے عوام کی خواہش و رائے کا ذکر کیوں ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ سیاسی قیدیوں سے بعض ’اہم مگر خفیہ‘ عناصر کی پلانٹ کی گئی یا وقوع پذیر ہونے والی ملاقاتوں کی خبر سناکر اس پر مستقبل کی سیاست اور اہم سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے کردار پر بحث و تمحیص سے پہلے یہ سوال اٹھانے اور بتانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی کہ آئین کے مطابق ملک میں جمہوری نظام کام کررہا ہے۔

ایک پارٹی انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے دیگر چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکمران ہے۔ پاکستان تحریک انصاف مرکز کے علاوہ اس وقت خیبر پختون خوا، پنجاب اور بلوچستان میں بھی برسر اقتدار ہے۔ وزیر اعظم بظاہر مؤثر اور فعال ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور بھارت کے جارحانہ عزائم کے علاوہ وہاں ابھرنے والی ہندو انتہا پسندی کے بارے میں انہوں نے جرات مندانہ اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا ہے۔ حکومت کو فوج کی مکمل اعانت کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے اور اس کے آثار بھی دکھائی دیتے ہیں۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے منہ سے نکلا ہؤا لفظ عمران خان کا تکیہ کلام بن جاتا ہے۔ اور اگر حکومت کی طرف سے کوئی اعلان ہو یا عمران خان کسی پہلو پر کسی خاص رائے کا اظہار کریں تو فوج کے مستعد ترجمان میجر جنرل آصف غفور فوری طور سے اس کی تصدیق کرتے ہیں اور اس بات کو آگے بڑھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ مقصد اس تندہی کا یہی ہوتا ہے کہ ہر عام و خاص پر واضح کردیاجائے کہ حکومت اور فوج ایک ہی پیج پر ہیں۔

گزشتہ ماہ کے دوران جنرل قمر جاوید باجوہ کو ریٹائرمنٹ سے تین ماہ پہلے ہی مزید تین سال کی توسیع کا حکم جاری کر کے سول ملٹری تعلقات میں موجود تعاون و یک جہتی پر مہر تصدیق بھی ثبت کی گئی ہے۔ اور یہ واضح بھی کیا گیا ہے کہ موجودہ انتظام اور فیصلوں میں تسلسل جاری رہے گا۔ نہ سول حکومت کو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی یہ توقع کی جائے کہ نیا آرمی چیف آ کر ملک کے موجودہ سیاسی انتظام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرسکتا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے دو روز پہلے ہی ایک بار پھر یہ یقین دہانی کروائی ہے کہ ملک کا مستقبل جمہوریت کے ساتھ ہی وابستہ ہے۔

ایسے ماحول میں وہ کون لوگ ہیں جو اس انتظام میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ کون عناصر ہیں جو مقید لیڈروں کے ساتھ کسی نہ کسی ڈیل کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ اور اس ڈیل یا ڈھیل سے کیا مقصد حاصل کرنا مطلوب ہو سکتا ہے؟ وزیر اعظم کرپشن کا سامنا کرنے والے سیاسی لیڈروں کو کسی بھی قسم کی رعایت نہ دینے کا اعلان تواتر سے کرتے رہتے ہیں جس کا نام انہوں نے ’این آار او‘ رکھا ہے۔ اب یہ تاثر کیوں استوار کیا جا رہا ہے کہ حکومت این آر او کے معاملہ پر یو ٹرن لینے والی ہے۔

یا یہ کہ سیاسی حکومت دراصل محض کاغذی شیر ہے، اصل فیصلے کسی دوسری جگہ پر کچھ اور لوگ کرتے ہیں۔ حکومت ہو یا اس کی سرپرستی کرنے والے حلقے۔ جن کا نام لئے بغیر ان پر یہ الزام دھرا جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو اقتدار تک پہنچانے میں ان کا ہی کردار ہے، ان کے تو بہترین مفاد میں یہی ہونا چاہیے کہ موجودہ انتظام چلتا رہے کیوں کہ اس میں تعاون کی خوشگوار فضا موجود ہے اور اپوزیشن کے دانتوں کا زہر نکال دیا گیا ہے۔ پھر ان قوتوں کے نمائندے آخر کیوں الزامات کی زد پر آئے ہوئے لیڈروں کے ساتھ ’مفاہمت‘ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

بنیادی اصول تو یہ ہونا چاہیے کہ میڈیا غیر مصدقہ اطلاعات پر قیاس آرائیوں کی عمارتیں تعمیر کرنے کی بجائے یہ واضح کرے کہ ملک کا آئین کسی قسم کے درپردہ جوڑ توڑ کی اجازت نہیں دیتا اور ایسا کرنے کی کوشش کرنے والوں کی مزاحمت کی جائے گی۔ کوئی شخص یا ادارہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو، اسے منتخب حکومت کو کمزور کرنے یا اس کے حق حکمرانی پر سوال اٹھانے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کسی کو عمران خان کے طرز حکمرانی پر اعتراض ہے یا ان کے فیصلوں کو قومی مفاد و ضرورتوں کے خلاف سمجھا جارہا ہے تو پارلیمنٹ میں ان کی مخالفت کی جائے۔

یا عدم اعتماد لاکر کسی دوسرے شخص کو وزیر اعظم بنانے کا شوق پورا کر لیا جائے۔ اس کے لئے زرداری کو رجھانے یا نواز شریف کو ملک سے باہر بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ سوال اٹھانے والا صحافی اور مبصر تو اس خبر کی سنسنی خیزی کا چٹخارا لینا چاہتا ہے کہ ایک بار پھر موجودہ نظام میں اکھاڑ پچھاڑ کا امکان ہے اور ایک بار پھر دور کی کوڑی لانے والوں کی دکان چمکنے والی ہے۔

بے مقصد خواہشات کی بنیاد پر یہ مباحث شروع کرنے والوں سے دست بستہ یہی گزارش کی جا سکتی ہے کہ سیاسی انتشار اور نئے جوڑ توڑ کو اہمیت دینے اور شرف قبولیت بخشنے کے علاوہ، عوام تک اسے مزید یقین اور اضافی معلومات کے ساتھ پہنچانے کی کوشش کرنے سے پہلے یہ تو سوچ لیا جائے کہ اس بگاڑ کا کیا فائدہ ہو گا؟ فرض کرلیا جائے کہ موجودہ حکومت کو طاقت ور حلقوں کی حمایت حاصل نہیں رہی۔ یہ بھی مان لیا جائے کہ اس کی ناکام معاشی اور سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے اب اس حکومت کو تبدیل کرنا ضروری ہوچکا ہے تو بھی یہ سوال تو اٹھایا جانا چاہیے کہ اس کے لئے ملفوف غیر آئینی طریقے کو قبول کرنے والوں کی دیانت اور جمہوریت سے وابستگی کے بارے میں کیا رائے قائم کی جائے گی؟ اگر نواز شریف یا آصف زرداری کسی بھی طرح ایسی کسی کوشش کا حصہ بنتے ہیں تو یہ کیسے مان لیا جائے کہ عمران خان یا تحریک انصاف کے خلاف ان کی مہم جوئی جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو کے اصول پر استوار تھی۔

میڈیا کے تبصروں میں بھی جمہوریت بنیادی اصول یا سوال کے طور پر دکھائی نہیں دیتی۔ یہی جمہوری نظام کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی یا کسی بھی سیاسی پارٹی کی نظریاتی یا اصولی حمایت کرنا ہر باشعور شہری کا حق ہے۔ لیکن کیا ایسے باشعوروں کو یہ حق بھی تفویض ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لیڈروں کے سیاسی احیا کی خواہش میں غیر سیاسی اور غیر آئینی طریقوں کو قبول بھی کر لیں اور اس کے لئے دلائل کا انبار بھی لگانا شروع کر دیں۔ یا مشکل قانونی اور سیاسی صورت حال کا سامنا کرنے والے لیڈر اگر منتخب حکومت گرانے کے لئے انہی عناصر کے ہاتھ پر بیعت کرنے پر آمادہ ہو رہے ہوں جن پر وہ ’سیلیکٹد وزیر اعظم‘ کو مسلط کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں تو عوام کے حق انتخاب کے اصول کا کیا ہو گا؟

درپردہ سازشوں کے ذریعے حکومت گرانے اور بنانے کی اس ذہنی، سیاسی اور صحافتی دھینگا مشتی کی بنیادی وجہ البتہ ملکی نظام میں غیر جمہوری طریقوں کا اثر و نفوذ ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی منتخب حکومت آزاد میڈیا، اختلافی رائے اور غیر جانبدار خبر کو اپنے مفاد کے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ اسی لئے ہر نوع کے میڈیا پر پابندیوں کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جس کے اثرات ہر سطح پر محسوسکیے جاسکتے ہیں۔ اسی طرح جمہوری طریقہ سے حکومت سنبھالنے والے عمران خان کا لب و لہجہ اور طرز حکمرانی آمرانہ ہے۔ وہ پارلیمنٹ کو کل بھی احترام نہیں دیتے تھے، اب بھی اس پر آمادہ نہیں ہیں۔ انہیں صرف وہی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹیرین اچھے لگتے ہیں جو انہیں اعتماد کا ووٹ دیں یا ان کی تعریف میں رطب اللساں ہوں۔ خوشامد کا رسیا لیڈر جمہوریت کے لئے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوتا ہے۔

چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے غیر جمہوری ہتھکنڈوں پر فخر کرنے والی حکومت کسی طور بھی جمہوری روایت کی امین نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی ایسے منتخب وزیر اعظم کی تائید ممکن نہیں ہو سکتی جو پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو احترام دینے اور ان کی بات سننے کا بھی روادار نہ ہو۔ عمران خان کی جمہوری حکومت غیر جمہوری ہتھکنڈوں کو اپنی کامیابی کی واحد وجہ سمجھنے کی غلطی کر رہی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ کی مدت میں توسیع اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے۔ تحریک انصاف اپنے لیڈروں کی صلاحیت، لیاقت، کارکردگی اور حکمت عملی کو کامیابی کا ذریعہ بنانے کی بجائے انتظامی اداروں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے یا انہیں راستے سے ہٹانے کو کامیابی کا تیر بہدف نسخہ سمجھ رہی ہے۔

کرپشن کے خلاف جد و جہد کے بعد دورہ امریکہ کے قصیدوں اور اب ایک ماہ سے بھارت کے خلاف نفرت کو سیاسی ہتھکنڈا بنا کر وقت گزارنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ طریقے غیر سیاسی اور جمہوری رویہ کے برعکس ہیں۔ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس کے لئے اسے اپوزیشن کو جینے، میڈیا کو آزادی سے کام کرنے اور بدترین سیاسی مخالفین کو بھی شفاف انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری قبول کرنا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali