شوگر ملوں سے بجلی کی پیداوار: ہم پیچھے کیوں رہ گئے؟


کہتے ہیں کہ ”خدا شکر خورے کو شکر ہی دیتا ہے“۔ پاکستانیوں کو میٹھی چیزیں کھانے کا شوق ہے اور اسی نسبت سے ملک میں چینی کے پیداوار بھی کافی ہے۔ گنے کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پاکستان کا پانچواں نمبر ہے اور چینی کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں نویں نمبر پر ہے۔ اور بعض سالوں میں یہ پوزیشن بہتر بھی ہو جاتی ہے۔ ملک میں اسی سے زائدشوگر ملز کام کر رہی ہیں۔ صنعت میں اور خاص طور پر زرعی صنعت میں کوشش یہی ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کو بغیر استعمال کے نہ چھوڑا جائے۔

 شوگر مل کو ہی لے لیں۔ گوکہ اس کا مقصد چینی کی پیداوار ہے لیکن اس غرض کے لئے جب گنے سے رس نکال لیا جائے تو گنے کا پھوک بچ جاتا ہے۔ اس کو استعمال کرکے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایک تو اس پھوک سے فائدہ حاصل کیا جائے گا اور دوسرے ماحول کو اس فاضل چیز کے برے اثرات سے بچایا جائے گا۔ دنیا میں اس پھوک سے بجلی بنانے کا رواج تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ پہلے تو اس کو استعمال کر کے صرف شوگر مل کو چلانے کے لئے توانائی حاصل کی جاتی تھی لیکن اب بہتر ٹیکنولوجی کے استعمال سے اس اتنی مقدار میں بجلی حاصل کی جا سکتی ہے جس سے بجلی کی ملکی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد ملے۔ ایسے بوائلر استعمال کر کے جن میں زیادہ دباؤ اور درجہ حرارت پیدا کیا جا سکے شوگر ملوں میں بجلی کی پیداوار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایک ٹن گنے سے رس نکالنے کے بعد 280 کلوگرام کے قریب پھوک حاصل ہوتا ہے۔ اورچھ کلو پھوک سے ایک کلوگرام خام تیل جتنی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔

دنیا میں سب سے زیادہ چینی پیدا کرنے والے ممالک برازیل اور بھارت ہیں۔ لیکن باوجود نسبتاً چھوٹا ملک ہونے کے تھائی لینڈ کی چینی کی پیداوار دنیا میں تیسرے نمبر پر اورتقریباً چین کے برابر ہے۔ تھائی لینڈ نے بہتر ٹیکنولوجی استعمال کر کے اس پیداوار میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔ اور اب برازیل کے بعد تھائی لینڈ چینی برآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ گذشتہ دس پندرہ سال میں برازیل اور تھائی لینڈ میں گنے کے پھوک سے بجلی کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ گذشتہ سال برازیل میں اس طریق سے بجلی کی پیداوار میں 11 فیصد اضافہ ہوا تھا۔ بھارت میں بھی شوگر ملز میں اس طرح بجلی پیدا کرنے میں اضافہ ہو رہا ہے۔

یہ دیکھنا ضروری ہے کہ پاکستان میں گنے کے پھوک سے کتنی بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ اور ایسا کرنے میں سراسر پاکستان کا فائدہ ہے کیونکہ ہم بجلی کی کمی کا شکار رہتے ہیں۔ بجلی پیدا کرنے کا یہ طریقہ سستا ہے، اورتیل سے بجلی پیدا کرنے پر جو زرِ مبادلہ خرچ ہوتا ہے وہ بھی بچ جاتا ہے اور ماحول کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ ہم وزارت ِ خزانہ کی جاری کردہ سالانہ اکنامک سروے رپورٹوں کو ہی معیار بنا کر جائزہ لیتے ہیں کہ اب تک پاکستان نے اس میدان میں کیا حاصل کیا ہے؟

پاکستان میں اس کی ضرورت 2013 میں محسوس کی گئی کہ شوگر ملز سے بجلی پیدا کر کے نیشنل گرڈ میں شامل کی جائے اور 2013۔ 14 کی پاکستان اکنامک سروے رپورٹ میں یہ اعلان کیا گیا کہ دنیا میں اس طریق پر بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور پاکستان تو گنے کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ اس لئے اب اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ میں تجزیہ پیش کیا گیا کہ پاکستان اس طریق پر دو ہزار میگاواٹ تک بجلی پیدا کر سکتا ہے۔

حکومت نے شوگر ملوں کو ابتدائی منظوریاں دینی شروع کردی ہیں اور امید ہے کہ اگلے دو تین سال میں پاکستان میں گنے کے پھوک سے ڈیڑھ سے دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونی شروع ہوجائے گی۔ یہ ایک امید افزا منصوبہ تھا۔ اگلے سال کی رپورٹ میں ان منصوبوں کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ 2015۔ 2016 کی پاکستان اکنامک رپورٹ میں صرف ایک سطر میں یہ بتایا گیا کہ اس سال دو منصوبوں نے گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کرنی شروع کردی ہے اور ان کی مجموعی پیداوار 92 میگاواٹ ہے۔

دو سال کی یہ کارکردگی امید اور ہدف سے بہت کم تھی لیکن اس حکومتی رپورٹ میں چند سطروں کا تجزیہ بھی پیش نہیں کیا گیا کہ ہم ہدف سے پیچھے کیوں رہ رہے ہیں؟ اور نہ ہی کوئی منصوبہ پیش کیا گیا کہ اس پیداوار کو کس طرح بڑھانا ہے؟ اِ س سے اگلے سال کی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2013 میں اس کام کو شروع کیا گیا تھا اور اب تک 24 کمپنیوں اور شوگر ملوں کو اس کی اجازت کے خطوط جاریکیے گئے ہیں اور جن کو یہ خطوط جاریکیے گئے ہیں ان سے مجموعی طور پر 817 میگاواٹ تک بجلی حاصل کی جا سکتی ہے۔

 اور اس رپورٹ میں یہ ذکر ہی نہیں کہ اب تک ہم نے 1500 میگاواٹ بجلی پیدا کرنی تھی، ایسا کیوں ہوا کہ ہم صرف اجازت نامے جاری کر کے ہی خوش ہو رہے ہیں۔ 2017۔ 2018 کی رپورٹ میں بیان کیا گیا کہ چھ شوگر ملیں اب 200 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ اور گذشتہ سال اکنامک سروے میں صرف یہ بیان کیا گیا کہ دو ایسے نئے پراجیکٹ مکمل ہوئے ہیں جن کی مجموعی پیداوار 58 میگاواٹ ہے۔ اور یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ انہوں نے نیشنل گرڈ کو بجلی دینی شروع کی ہے کہ نہیں۔ اس احتراز کی بھی ایک وجہ تھی۔

یہ مختصر جائزہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنے لئے بلند ٹارگٹ تو مقرر کر لیتے ہیں لیکن جب اسے حاصل نہیں کر سکتے تو اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کی بجائے اس ہدف کا ذکر کرنا بھی ترک کر دیتے ہیں۔ تا کہ اپنی ناکامی کا اعتراف نہ کرنا پڑے۔ لیکن اس طرح اپنی کمزوریوں اور غلطیوں کو کبھی درست نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت بھی پاکستان میں ایسی شوگر ملز موجود ہیں جو کہ بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ لگا چکی ہیں لیکن حکومت کی طرف سے پیداوار شروع کرنے کی آخری اجازت ملنے میں روکیں موجود ہیں۔

 یقینی طور پر حکومتی افسران کے کچھ تحفظات ہوں گے لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ باوجود اس کے کہ ساری سرمایہ کاری ہو چکی ہے، بجلی کی پیداوار کو شروع نہ ہونے دیا جائے۔ یہ صرف ان شوگر ملوں کا نقصان نہیں بلکہ ایک قومی نقصان ہوگا۔ اس طرح تو آئندہ سے اس اہم شعبہ میں سرمایہ کاری کا راستہ رک جائے گا۔ اور پاکستان توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری کو خطرے میں ڈالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اور شوگر ملز کے نمائندگان مل کر بیٹھیں اور جلد ایسا راستہ نکالیں کہ جو پراجیکٹ مکمل ہو چکے ہیں وہ پیداوار شروع کریں اور ایسا منصوبہ بنایا جائے کہ اس شعبہ میں گنجائش کے مطابق بجلی کی زیادہ سے زیادہ پیداوار شروع ہو سکے۔

بھارت کی مثال ہی لے لیتے ہیں۔ بھارت میں کئی صوبے ہیں جن کی شوگرملیں پورے پاکستان کی شوگر ملز سے کئی گنا زیادہ بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ اتر پردیش کی شوگر ملوں میں 1250 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہے اور وہ اس گنجائش کے نصف کے برابر بجلی کی پیداوار شروع کر چکی ہیں۔ یہی کیفیت مہاراشٹرا کی ہے۔ کرناٹک اور تامل ناڈو جیسے چھوٹے صوبے بھی ہیں جن کی شوگر ملوں میں بجلی پیدا کرنے کی زیادہ سے زیادہ گنجائش فی صوبہ صرف 450 میگاواٹ ہے، ۔ اور ان دونوں صوبوں کی شوگر ملز پورے پاکستان کی شوگر ملز سے زیادہ بجلی پیدا کر رہی ہیں۔ مختصر یہ کہ ہمیں ہر حال میں اپنی پیداواری صلاحیتوں کو بڑھانا ہو گا، خواہ اس کے لئے ’کڑے احتساب‘ کی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).