کشمیر: انڈین فوج پر ’سنگین الزامات‘ لگانے پر سیاسی و سماجی کارکن شہلا رشید کے خلاف غداری کا مقدمہ


شہلا رشید

شہلا رشید نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے انڈین فوج کے خلاف کشمیریوں پر تشدد کرنے کا الزام عائد کیا تھا

انڈیا کی پولیس نے جموں و کشمیر عوامی تحریک کی رہنما اور دلی میں واقع جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی طلبہ یونین کی سابق نائب صدر شہلا رشید کے خلاف انڈین فوج سے متعلق مبینہ جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزام میں غداری کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے وکیل الکھ آلوک شریواستو کی شکایت پر درج کیا گیا ہے۔

الکھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے دلی پولیس کے خصوصی سیل میں یہ رپورٹ درج کرائی ہے۔ شہلا نے انڈین فوج پر جھوٹے الزامات عائد کیے تھے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘

شہلا رشید کون ہیں اور کیوں ٹرینڈ کر رہی ہیں؟

دلی یونیورسٹی کے شو میں عمر خالد کی شرکت پر ہنگامہ

وکیل الکھ آلوک کا مزید کہنا تھا کہ شہلا نے بغیر کسی ثبوت فوج پر سنگین الزامات لگائے اور اپنے ٹویٹس کے ذریعے ملک میں فساد برپا کرنے کی کوشش کی۔

الکھ نے اپنی شکایت میں یہ الزام بھی عائد کیا کہ شہلا نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں ’جو کبھی رونما ہی نہیں ہوئیں۔’

شہلا رشید نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے بعد کشمیر کے لاک ڈاؤن پر تبصرہ کرتے ہوئے 18 اگست کو ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ کشمیر میں ‘مسلح فوجی رات میں گھروں میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ لڑکوں کو حراست میں لیتے ہیں۔ گھر کے سامان کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ اناج اور غلے کو فرش پر بکھیر کر اس میں تیل ملا دیتے ہیں۔’

کشمیر

ایک دوسری ٹویٹ میں انھوں نے لکھا تھا کہ’شوپیاں میں چار (کشمیری) لڑکوں کو فوجی کمیپ میں طلب کیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ ( ٹارچر) کی گئی۔ ان کے قریب ایک مائک رکھا گیا تاکہ پورے علاقے کے لوگ ان کی چیخیں سن سکیں تاکہ انھیں خوفزدہ کیا جا سکے۔ اس سے پورے علاق‍ے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔’

وکیل الکھ شریواستو نے بتایا کہ انھوں نے یہ ٹویٹ پڑھنے کے بعد شہلا کے خلاف پولیس میں ایف آر درج کرائی ہے۔ اس میں تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے ( غداری ) 153 اے ، 153 اور بعض دوسری دفعات کے تحت مقدمہ درج کرایا گیا ہے۔

شہلا کا مؤقف

دلی میں اپوزیشن کے ایک مظاہرے کے دوران جب نامہ نگاروں نے شہلا سے ان الزامات سے متعلق تفصیلات اور ثبوت مانگے تو انھوں نے جواب دیا تھا کہ وہ ان واقعات کی تفصیلات اس شرط پر دینے کے لیے تیار ہیں کہ فوج ان الزامات کی غیر جانبدار تفتیش کرے اور یقین دہانی کرائے کہ ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

تاہم انڈین فوج نے ان سبھی الزامات کو بے بنیاد اور جھوٹ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔

شہلا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اب انھیں کسی بھی وقت گرفتار کیا جا سکتا ہے۔

شہلا رشید کون ہیں؟

شہلا رشید کا تعلق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے۔ گذشتہ مارچ میں انھوں نے سابق سرکاری افسر شاہ فیصل کی سیاسی جماعت جموں و کشمیر عوامی تحریک میں شمولیت اختیار کی تھی۔

شہلا رشید

شہلا رشید کا تعلق انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے ہے

وہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ شہلا سنہ 2015 سے سنہ 2016 تک جے این یو طلبہ یونین کی نائب صدر رہیں اور اس وقت وہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم آل انڈیا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ تھیں۔

پہلی بار قومی سطح پر وہ اس وقت نظروں میں آئیں جب پارلیمان پر حملے کے جرم میں پھانسی پانے والے کشمیری افضل گرو کی برسی پر جے این یو میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا۔

بی جے پی سے وابستہ یونیورسٹی کے بعض طلبہ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اس پروگرام کے دوران یونین کے رہنماؤں سمیت بعض کشمیری شرکا نے کشمیر کی آزادی اور انڈیا کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے نعرے لگائے تھے۔ پولیس نے اس سلسلے میں یونین کے صدر اور بعض دیگر افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔

شہلا کا شمار ان چند کشمیری خواتین میں ہوتا ہے جو کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال بالخصوص انڈر ٹرائل نو عمر بچوں کو انصاف دلانے کے لیے سرگرم رہی ہیں۔

ایک تقریب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘میں کشمیر میں انڈیا کی ایک بہت پرتشدد تصویر دیکھتے ہوئے بڑی ہوئی ہوں۔ لیکن جے این یو نے مجھے اپنے خیالات کے اظہار اور ارتقا کے لیے ایک جمہوری موقع فراہم کیا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp