آؤ سچ بولیں! (2)


میرا لکھا سفر نامہ پڑھنے سے پہلے یا بعد میں اپنے من کی آنکھ کھولیں اور حقیقیت کی کھڑکی کھول کر وہاں جھانکیں جہاں میں جھانک رہی ہوں۔ کہ آپ پہلی دنیا کے پہلے درجے کے شہریوں کے بارے میں پڑھ رہے ہیں۔ جو میری اور آپ کی طرح کے انسان ہیں۔ پرانے وقتوں کے قصے، کہانیوں، کتابوں، سفرناموں کے مطابق یہ اخلاق باختہ قوم، بے راہ روی کے پیروکار، ظالم، زنا کے مرتکب، دوزخی، حرام کے جنے دیکھیں، اب کیسے خاندان و معاشرے کی تعمیر کر چکے ہیں۔

صبح اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ اٹھایا تو مقامی لوگوں کو اپنے یارڈ، بیک یارڈ میں کام کرتے ہوئے پایا۔

امریکہ اور پاکستان میں دنیا کی تقسیم کے حوالے سے دیکھیں تو پہلی، دوسری دنیا نے پاکستان کو تیسری دنیا کا ملک قرار دیا ہے۔

ہم نے معیشت کے استحکام کے لئے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جو آس پڑوس کے ملک میں موجود ہے۔ یعنی کرپشن تو ان ممالک میں بھی ہے لیکن صرف کرپشن ہی تک حکومت محدود نہیں ہے۔ حکومت خود کو بچانے کے لئے معیشت و ملکی استحکام پر گزند نہیں لگاتی ( جیسے کہ بڑے پیمانے پر پاکستان نے جھیلی اور بھگت رہا ہے۔ ) یا کہہ لیں کہ کرپشن اتنے بڑے اور برے پیمانے پر نہیں پھیل سکی جس میں پاکستان الجھ گیا ان ممالک نے بروقت فوری اور کڑی سزائیں دے کر معاملہ ملکی استحکام و بقا تک آنے نہیں دیا۔

ملکی سطح پر سیاسی موازنہ کر کر کے ہم نے اخلاقیات کی ترسیل اور اس پر قائم رہنے کو بھی سیاسیات زدہ کر دیا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں لوگ مفت کھانے پینے کا انتظام بھی کرتے ہیں وہیں کسی بھوکے کی روٹی کی چوری، کسی غریب کے وقت اور حالات کی چوری ”میرا ٹائم بھی آئے گا“ جیسی لاچاری و بے بسی، بھوک و افلاس کو جرم سمجھ کر برداشت نہیں کرتے اور ان کے لئے موت یا ضرب و کوب کی انتہا تشدد کو اپنا حق سمجھتے ایسے استعمال کرتے ہیں گویا۔

یہ حرکت ملکی استحکام وسلامتی پر حرف ہو۔ یہی غدار ہوں۔

یہی خبریں ہفتوں ہمارے اخلاقیات کو ایسے ضرب و کوب کرتی ہیں گویا اب یہاں کوئی انسان بچا نہ انسانیت۔

اخلاقیات میں تو کوئی درجہ بندی نہیں ہوئی تھی پھر کیوں ہم پاکستانی اخلاقیات کے تیسرے درجے پر بھی نا بیٹھ سکے۔ پستی میں گر گئے۔

اخلاقیات کیوں کر پاکستانیوں سے چھن گئیں۔ ؟

( کیا ائی ایم ایف نے اخلاقیات کی ترسیل بھی بند کر دی ہے؟ یا بند کرنے کو کہا تھا؟ )

تربیت کی کنجی تو ہاتھ میں تھی۔ وہ کون لے اڑا؟ کہاں گئی؟

یہاں سوالات تسلسل کے ساتھ کھڑے ہوتے رہیں گے۔ لیکن جواب صرف ہم ہی دے سکتے ہیں۔

( ان معاملات میں اب تک ہم نے سوال نہیں جنم دیا۔ جواب کیسے لیں گے؟ ۔ ہمیں تو ہمارے مذہبی سیاسی پیشہ وارانہ لوگ اسکالرز لگتے ہیں۔ جو خود بھرم بازیوں پر زندہ ہیں۔ وہی بتلا رہے ہیں وہی ہم ان سے سیکھ رہے ہیں اور اللہ اللہ خیر صلا۔ ان ہی سے دین سیکھا اور ان ہی کے طفیل دنیا۔ وہی رہن سہن سمجھ کر اپنا لیا) ۔

ہمارے معاشرے کی ہمدردی و خلوص میں تشدد نے جگہ بنالی ہے اور تشدد اس میں مسلسل نفرت کے ساتھ ہمدردی کو شکست دینے میں مصروف عمل ہے۔

کیوں؟

خلوص محض دھوکہ دینے کے لئے اٹھا رکھا ہے۔

کیوں؟ کیوں ہم پورے خلوص کے ساتھ صرف دھوکہ دیتے ہیں خود کو بھی اور دوسروں کو بھی۔

سچ کب بولیں گے؟ سچ کا ساتھ کب دیں گے؟

پتہ نہیں۔

ایسے میں کہیں پہلی دنیا کے پہلے درجہ کے شاندار گھروں میں مقیم کھاتے پیتے شہری دیکھیں جو اپنے گھروں کے اندر اور باہر کے کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں۔ یہ خود سے پرخلوص ہیں۔ ان کی خوشحالی میں کسی غریب کی محنت، بیگاری یا کسمپرسی حصہ دار نہیں۔ لیکن کیوں؟

کیوں پاکستانی امیر آدمی جیسے یہ امیر نہیں جہاں مالی، چوکیدار، ماسی، خانسامہ، آیا یا جمعدار اور کچھ بھرتی کے نوکر ان کا کام انجام دے کر انھیں امیر اور کھاتا پیتا ثابت کر رہے ہوں۔ اور ہاں گھر سے باہر ذاتی گارڈز بھی ہوں تو زیادہ امارت جھلکتی ہے شاید۔

ایسا یہاں امریکہ کے کسی علاقے کسی طبقہ میں نہیں ہے۔ (طبقہ جو کسی رہائشی سہولت پسند یا ناپسندی کے باعث آباد ہو) ۔ ہاں بیمار کے لئے مڈوائف یا نرسنگ سہولیات موجود ہیں۔ نوکر نہیں۔

ایسے میں، میں کھڑکی کا پردہ پکڑے سوچتی موازنہ کرتی گئی۔

نامعلوم کس لمحے وہاں سے ہٹی، پلٹی۔ خود کو کمرے میں ٹہلتا ہوا پایا۔

دل کو تسلی دی کہ یہ بھی بھلا کوئی امیر پہلے درجہ کا ملک ہوا جو غریب پیدا نہیں کرتا؟ بھلا یہ بھی کیسے امیر ہوئے جو اپنا کام ( عورت و مرد سے مستشنی) خود کرتے ہیں۔ آئے بڑے امیر۔

اپنے کپڑے تک تو خود دھوتے ہیں پھر استری کرتے ہیں۔ کوڑا خود اٹھاتے ہیں پھینک کر آتے ہیں۔ کون کون سے کام گنواوں۔ سمجھ لیں چھوٹے چھوٹے ہر کام جو پاکستان میں غریب کے لئے اٹھا کر رکھے جاتے ہیں تاکہ اس کی کسمپرسی اس کے پیشہ سے، اس کے لباس سے، اور سب سے زیادہ اس کی صورت سے ٹپکے۔ بس یہ سمجھ لیں جو محنت اور بیگاری کے کام پاکستان میں غریب کے متھے لگے ہیں وہ یہ کھاتے پیتے، خوش پوش، خوش اخلاق، خوش شکل سب سے بڑھ کر گوری چمڑی والے گورے گوریاں خود انجام دیتے ہیں۔ جی ہاں اصل گورے! (انجیکشن زدہ، گورا کرنے والی کریم کے استعمال زدہ گورے نہیں ) کام نمٹانے کے عوض کسی اپنے سے چھوٹے یا بڑے کو جھڑکیاں نہیں دیتے، احسان نہیں کرتے۔ بھلا یہ بھی کیا امارت ہوئی نہ حقارت آئی نہ گھر والوں سے تیر میر۔ ہونہہ۔ پوچھیں کسی پاکستانی سے۔

میں بھی بھرم باز ہوں پاکستان میں تو رہتی ہوں کہیں تو اثر آئے گا۔ یہ بھرم سمیٹے تھوڑی دیر جلتی بھنتی رہی۔ سوچتی رہی۔ ٹہلتی رہی۔

( لیکن یہ انا یہ بھرم بہت جلد میرے اندر سے رفوچکر ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ میں تیسرے درجے کے پاکستان میں بھی اخلاقیات کا درجہ ممکنا حد تک پہلے درجے پر سنبھالے رہتی ہوں۔ میں نے کبھی اپنی ماں باپ کی تربیت کو آئی ایم ایف کی ایڈ زدہ نہیں سمجھا جو بلا سوچے سمجھے تیاگ دیتی۔ )

اندر کی آنکھ سے دیکھیں تو کیا ان کا یہ عمل اول درجہ کا عمل نہیں ہے۔ اصل اعلی عمل۔ جہاں امیر غریب سب برابر ہیں۔ امیر یہاں غریب پیدا کرنے میں نہ حصہ دار ہیں نہ اس کا سبب۔ کھاتے پیتے امیر ہوں یا اوسط امدن والے۔ یہ پیسے یا پیشے کے حساب سے ہوٹل، ریستوران، اشیاء خوردونوش میں فرق کر کے نہیں بیچتے نہ ہی کھاتے ہیں۔ کھانے، پینے، پہننے اور استعمال میں آنے والی تمام اشیاء کا مرکز یکساں ہے۔ یہاں اول تو کوئی فقیر ہے نہیں، سونے پر سہاگہ امیر اور غریب کا کوئی فرق کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی نہ حکومتی سطح پر یہ تفریق کی گئی نہ لوگوں نے کسی ایسے ذہنی فتور کو جنم دیا۔

سب کے لئے نظام برابر، قانون یکساں۔ جی ہاں یکساں! غریب ایک جیسا کھاتے ہیں ایک جیسا پہنتے ہیں۔ تفریح کے لئے ایک جگہ جاتے ہیں۔ ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں۔ ایک ہی نظام تعلیم ہے۔ ایک جیسی سواریوں میں سفر کرتے ہیں۔ بہترین سڑکیں غریب کو بھی اس کے گھر باحفاظت وقت کا ضیاع کیے بغیر پہنچا دیتی ہیں امیر کو بھی۔ اپنے دفتر یا کاروباری مراکز سے نکل کر ان میں معاشرتی تفریق ہے نا معاشی۔ یہ ایک شناخت ایک قوم ہیں۔ انسانیت پرور ہیں۔ (میں نے سمجھانے کے لئے امیر غریب لکھا ہے۔ زیادہ آمدن کم آمدن والے کہہ لیں لیکن رہن سہن، کھانے پینے، روزمرہ کام کاج میں تفرقات موجود ہی نہیں۔ آپ حال و حلیہ سے بھی امیر یا غریب تلاش نہیں کر سکیں گے ) یہ ہیں ترقی یافتہ ملک کے خاص و عام شہری۔

ہمارے مذہبی و معاشرتی (موجودہ فلسفیانہ بڑک باز) اسکالرز یا تو مذہب کی آنکھ سے دنیا دکھاتے ہیں یا انسانی دنیا کا وہ پہلو دکھاتے ہیں جو قابل عمل ہے نہ ہمارے رہن سہن سے مطابقت رکھتا ہے۔

رہن سہن دیکھنے کے لئے عام آدمی کو عام آدمی کی آنکھ سے دیکھیں۔ رو روش اپنانا ہے تو یہ اپنائیں۔ اس میں نہ مذہب ہاتھ روک رہا ہے نہ معاشرہ سور کھلا رہا ہے۔ جس پر نہ ملا دہلائے نہ کسی اسکالر سے دقیانوسی ہونے کا طعنہ ملے۔

معاشرے میں تفرقات کیوں اور کیسے آئے؟

میں جھوٹی انا اور گمشدہ شان و شوکت کے جال میں پھنسا کر بدلے میں آپ سے لفاظی کی واہ واہ نہیں چاہتی۔ میں بھی منٹو کی طرح آپ کو پکار رہی ہوں تارڑ صاحب کی طرح سفر نامہ لکھ رہی ہوں۔ دلچسپ نہ سہی۔ امید کا تو ہے۔ اس یقین کی کھلی کھڑکی کے ساتھ۔ کہ آؤ۔ سچ بولیں۔ سچ بولیں گے تو سچ سننے کی تاب لا سکیں گے اس مستقبل کے لئے جو ہمارا ہے ایک قوم کا ہے۔

ورنہ ہم امیر اور غریب میں مزید تقسیم ہو جائیں گے۔ غور سے دیکھیں کہ امیری کی چکاچوند اور طاقت کی تقسیم ظالم کی پھیلائی ہوئی ہے۔ پھر کیوں ہم سے غربت کی آبیاری ہو۔ ؟

جب کہ کہیں چند مٹھی بھر امیروں کے آگے باقی ہم سب غریب کی قطار میں ہی کھڑے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).