آرٹیکل 370 کا خاتمہ: کشمیر: کسی کے لیے پرامن، کسی کے لیے آتش فشاں


انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی آئین کی شق 370 کو ختم کیے ہوئے اور وادی میں لاک ڈاؤن کو ایک ماہ گزر چکا ہے۔ کشمیر میں مغربی کمان کے جنرل آفیسر کمانڈنگ لفٹیننٹ جنرل کے جے ایس ڈھلن نے ہلاکتوں کے اعتبار سے اس ایک مہینے کی صورتحال کو گذشتہ تیس برس میں ‘وادی کا سب سے پر امن مہینہ’ قرار دیا ہے۔

اس کے بر عکس حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے کہا ہے کہ ’کشمیر ایک ایسا آتش فشاں ہے جو کسی بھی وقت پھٹنے کے لیے تیار ہے۔‘

کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کو حکومت کے حامی اور دائیں بازو کا رحجان رکھنے والے دانشور اور سیاسی جماعتیں مودی حکومت کا ایک جرات مندانہ اور تاریخی قدم قرار دے رہی ہیں۔ بہت سے انڈین کا یہ خیال ہے کہ اس فیصلے سے کشمیر کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو گیا۔

ایک کشمیری صحافی راہل پنڈیتا کا کہنا ہے کہ ‘اس فیصلے سے کشمیر کا مسئلہ پوری طرح تو حل نہیں ہوا ہے لیکن یہ حل ہونے کی طرف پہلا جامع قدم ہے۔’

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: ’ہمیں انسانیت نہیں کھونی چاہیے‘

کشمیر: ’اشیائے ضروریہ ہیں مگر ادویات کا مسئلہ ہے‘

کشمیر میں صحافیوں کے لیے کام کرنا ’تقریباً ناممکن‘

کشمیر ڈائری: کیا شناخت چھینی یا مٹائی جا سکتی ہے؟

کشمیر

انڈیا میں عمومی رائے یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کشمیر کا مسئلہ حل ہو چکا ہے

اس مدت میں اگر کسی جگہ سے لوگوں کی رائے نہیں سامنے آئی ہے تو وہ ہے کشمیر کے لوگوں کی۔ وادی کے 70 لاکھ باشندے گذشتہ ایک مہینے سے ایک انتہائی غیر معمولی نوعیت کی پاپندیوں سے گزر رہے ہیں۔ پہلے تو وہ پابندیوں اور خوف کے سبب اپنے گھروں میں محصور تھے اور اب جب ان پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے تو وہ اپنے گھروں سے نہیں نکل رہے ہیں۔

اگر ان سے کچھ پوچھنا چاہیں تو وہ سامنے آ کر کچھ بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دلی اور سری نگر کے درمیان ایک پراسرار خلا ہے۔

انڈیا کشمیر کے مسئلے کو ہمیشہ اندرونی معاملہ قرار دیتا رہا ہے۔ خصوصی حیثیت ختم کیے جانے بعد حکومت کا موقف یہ ہے کہ کشمیر اب پوری طرح انڈین ریاست میں ضم ہو چکا ہے۔ اب یہ پوری طرح انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔

قومی سلامتی مشاورتی بورڈ کے رکن تلک دیواشیر نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ‘پاکستان جو بھی دعویٰ کرتا رہے حقیقت یہ ہے کہ جموں و کشمیر اب ایک باہمی ایشو نہیں رہا۔’

شق 370 کے خاتمے کے بعد انڈیا ‘اندرونی معاملے’ پر پہت زیادہ زور دے رہا ہے۔ یوم آزادی کی تقریراور قوم سے خطاب جیسے موقعے پر بہت شعوری طور پر نہ صرف اسے ایک اندرونی معاملہ بتایا گیا بلکہ ان تقریروں میں پاکستان کا ذکر یا تو بالواسطہ طور پر آیا یا پھر برائے نام رہا۔

انڈیا دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ کشمیر سے پاکستان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور روس جیسے ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات میں انڈیا نے واضح طور پر یہی پیغام دیا ہے کہ یہ انڈیا کے ایک خطے کا اندرونی معاملہ ہے۔

کشمیر کے حالات کے سلسلے میں انڈیا کو ابھی تک بین الاقوامی سطح پر کسی قابل ذکر مشکل کا سامنا نہیں ہوا ہے۔ اسے سب سے بڑا چیلنج شورش زدہ کشمیر میں ہے۔ اگر ماضی کی طرح کشمیر میں بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات ہوتے اور بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتیں تو یہ صورتحال انڈیا کے لیے کافی مشکلات پیدا کرتی اور عالمی برادری کی توجہ اس طرف مبزول ہوتی۔

کشمیر

بے مثال پابندیوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کو ایک ماہ سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈاؤن کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے

اسی لیے خصوصی حیثیت ختم کرنے سے پہلے ہی کشمیر میں بڑے پیمانے پر فوجی اور نیم فوجی دستے تعینات کر دیے گیے تھے۔ علیحدگی پسندوں کے ساتھ ہند نواز رہنماؤں کو بھی قید میں ڈال دیا گیا تاکہ کوئی منظم مزاحمت، مخالفت یا احتجاج کی صورت نہ بن سکے۔

غیر معمولی قدغنوں کے درمیان انڈیا کا سب سے بڑا سکیورٹی ایجنڈہ یہ ہے کہ شورش زدہ وادی میں مظاہرے نہ ہو سکیں اور بالخصوص ہلاکتیں نا ہوں۔ پر تشدد مظاہرے اور ہلاکتیں اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کر سکتی تھیں۔ انڈیا اب تک اپنی اس حکمت عملی میں بہت حد تک کامیاب نظر آتا ہے۔

وادی میں لوگوں کے آنے جانے پر لگی ہوئی بیشتر پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں۔ لیکن ٹیلی مواصلات، موبائل اور انٹرنیٹ کی سہولیات اب بھی کم وبیش پوری طرح بند ہیں۔ سبھی سیاسی رہنما بدستور قید میں ہیں۔

اس صورتحال میں اس مہینے کے اواخر تک کسی تبدیلی کے آثار نہیں ہیں۔ ستمبر کے اواخر میں انڈیا کے وزیر اعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان بھی انھیں دنوں جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے والے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان اس موقع پر عالمی برادری بالخصوص مسلم ممالک کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی تقریر میں بیشتر توجہ کشمیر کی صورتحال پر مرکوز کریں گے۔ اس کے برعکس اگر انڈیا کی حالیہ حکمت عملی پر غور کیا جائے تو اس بات کا پورا امکان ہے کہ وزیر اعظم مودی اقوام متحدہ میں کشمیر کا شاید ذکر بھی نہ کریں اور دہشت گردی کی معاونت وغیرہ کے حوالے سے ‘پڑوسی ملک’ کا شاید بالواسطہ طور پر ایک سرسری ذکر آئے۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیریوں کا پرتشدد فوجی کریک ڈاؤن کا الزام

’مودی کی وجہ سے زندگی کا سب سے بڑا دن خراب ہوا ہے‘

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انڈیا کی حکمت عملی ابھی تک بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی عالمی رہنماؤں سے رجوع کیا ہے۔ پاکستانی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے۔

لیکن اصل مسئلہ کشمیر ہے۔ جہاں انڈیا کو سب سے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ وادی ابھی محصور ہے۔ لاکھوں فوجیوں کے دستے وادی میں تعینات ہیں۔ ہزاروں نوجوانوں اور نوعمر لڑکوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔ کشمیریوں کی زندگی کا ہر پہلو اس وقت حکومت کے کنٹرول میں ہے۔

انڈیا نے کشمیر کے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے ایک طویل مدتی مرحلہ وار حکمت عملی تیار کر رکھی ہے لیکن انڈیا کی کامیابی کا اندازہ اس وقت لگے گا جب سیاسی رہنما قید سے رہا ہوں گے، موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولیات بحال ہوں گی۔

ستر لاکھ لوگوں کو دائمی طور پر بنیادی حقوق بالخصوص اظہار کی آزادی سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔

ملک کی معروف تجزیہ کار نروپما سبرامنین نے کشمیر کے دورے کے بعد لکھا ہے کہ ‘یہ حیرت انگیز ہے کہ کتنے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ انڈیا کا کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا۔ لیکن زمینی حقیقت اس سے بالکل مختلف ہے۔ ایک بار جب اس جشن کی دھند ہٹ جائے گی اس کے بعد ہی کشمیر کے چیلنجز کا پتہ چل سکے گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp