جذباتی، جنونی اور سفاک معاشرے نے کب جنم لیا؟


نویں جماعت ( 1979 ) کے زمانے میں رہائش شمالی ناظم آباد میں تھی۔ گھر کے سامنے ہی کھیل کا میدان تھا۔ شمالی ناظم آباد اور ناظم آباد کے ہر بلاک میں کھیل کے میدان ہوتے تھے۔ شمالی ناظم آباد میں ہر میدان کے ساتھ مسجد، فلاحی یا سماجی بہبود کا ادارہ ہوتا تھا۔ کھیل کے میدانوں میں انتظامیہ کی طرف سے کلب سطح کی فٹبال، کرکٹ اور ہاکی ٹیموں کو کھیل کی اجازت ہوتی تھی۔

گھر کے سامنے جو میدان تھا۔ وہاں ہاکی کھیلی جاتی تھی اور سیمنٹڈ پچ کرکٹ کے کھیل کے لیے بھی بنی ہوئی تھی۔ لیکن میدان میں کھیلنے کا حق ہُما ہاکی کلب کو تھا۔ رواداری کا دور تھا، کبھی ہاکی پریکٹس سے پہلے کرکٹ کا میچ چل رہا ہوتا تھا تو ہاکی کے کھلاڑی کرکٹ میچ ختم ہونے کا انتظار کرتے تھے اور کرکٹ کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ کبھی کبھار ان کے ساتھ دوستانہ کرکٹ میچ بھی کھیل لیا کرتے تھے۔

ہُما ہاکی کلب کے ہم بھی کھلاڑی تھے۔ ضلعی ہاکی ٹورنامنٹس میں جہاں کلب حصہ لیتا تھا، وہیں سٹیٹ بینک کی ٹیم کے ساتھ تواتر کے ساتھ پریکٹس میچ ہوتے تھے۔ میچ سٹیٹ بینک کے میدانوں میں ہوتے تھے۔ جن میدانوں میں میچ کھیلتے تھے۔ اب وہ رینجرز کے پاس ہیں۔ ہماری بھانجی کا ولیمہ رینجرز کلب میں تھا۔ جب شرکت کے لیے پہنچے تو ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ چونکہ اس میدان میں تو ہم سٹیٹ بینک کی ٹیم سے میچ کھیلا کرتے تھے۔

کیا دور تھا، ہمارے کوچ شکیل بھائی ایک سرکاری بینک کی طرف سے ہاکی کھیلتے تھے۔ ایک دفعہ تو عمان کی ہاکی ٹیم سے بھی ہاکی کلب آف پاکستان میں پریکٹس میچ کھلوایا۔ آسٹرو ٹرف پر کھیلنے کا موقع بہت خوش کن تھا۔ غرض یہ کہ وہ دور کراچی کے بہترین دور میں سے تھا۔ جب گھر کے سامنے ٹوٹی پھوٹی اور ادھڑی سڑک کی استر کاری ہوئی اور گندی گلی کو بھی پکا کیا گیا، تو حیرانی ہوئی کہ یہ سب اچانک کیسے ہوگیا۔ چونکہ اپنے بچپن اور لڑکپن میں تو کبھی محلے، گلیوں کی سڑکیں بنتی دیکھی نہیں تھیں۔

بڑے بھائی نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں اور سڑکیں بنانا شہری انتظامیہ کے ذمے داری ہوتا ہے۔ علاقہ کونسلر نے بلدیاتی فنڈ سے سڑکیں بنوائی ہیں۔ یوں بلدیاتی اداروں کی افادیت کا پتا چلا۔ کراچی کے میئر اس وقت مرحوم عبد الستار افغانی تھے۔ روزانہ شام کو علاقہ کونسلر طاہر محمد خان دفتر میں موجود ہوتے اور سائلین کے مسائل سنتے، حل کرتے۔ مصالحتی کمیٹی بھی کونسلر آفس میں شہریوں کے درمیان مصالحت کا فریضہ انجام دیتی۔

لِیکن 1980 کے بعد ایک تبدیلی آئی۔ بھائی جو شپ یارڈ پہلے بذریعہ بس جاتے تھے۔ گھر سے دور واقع ایک بس اسٹاپ سے بذریعہ فورڈ ویگن دفتر جانے لگے۔ اور ویگن کی بہت تعریف کی کے سیٹ بائی سیٹ بٹھاتے ہیں۔ وین کا کرایہ ایک روپیہ ہوتا ہے ( بس کا کرایہ اس زمانے میں پچاس پیسے تھا۔ ) پھر وہ دور بھی آیا کہ ان ہی ویگنوں میں مسافر کمر جھکا کر سفر کرنے پر مجبور تھے۔ ازراہ مذاق اس زمانے میں کہا جاتا تھا کہ دفتر مرغا بن کر آیا ہوں اور مرغا بن کر جاؤں گا۔

شہری رفتہ رفتہ بس، ویگن اور وین کے ڈرائیورز اور کنڈکٹرز کے رویے سے جھنجھلا بھی جاتے تھے۔ بسیں، ویگنیں اور وینیں زیادہ سے زیادہ مسافر بٹھانے کے چکر میں ریسیں بھی لگاتی تھیں۔ ایسی ہی ایک ریس میں کالج کی طالبہ بشری زیدی ویگن کی زد میں آئی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ شہری جو شہر میں ہونے والی ڈیموگرافک تبدیلی کو محسوس کر رہے تھے اور آپس میں ڈھکے چھپے الفاظ میں تحفظات کا اظہار کرتے تھے۔ سراپا احتجاج بن گئے۔ موقع پرستوں نے موقعے کا فائدہ اٹھایا اور حادثے کے بعد اس واقعے کو لسانی رنگ دے دیا۔

اسّی کی دہائی میں شہر کراچی میں گلی گلی اور شہر کے مضافاتی علاقوں میں زمین پر قبضہ کر کے مساجد اور مدارس کی تعمیر کا آغاز ہو گیا۔ بشری زیدی کیس کے بعد ایم کیو ایم تو جنم لے ہی چکی تھی۔ جگہ جگہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر مساجد و مدارس کی تعمیر سے دینی کشمکش میں اضافہ ہوا۔ اب دینی و مسلکی بنیادوں پر تنظیموں کا وجود بھی عمل میں آگیا۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے۔ جب سیاسی سرگرمیاں شروع ہوئیں تو شر پسند عناصر اور تنظیمیں بھی سیاست کی آڑ میں سرگرم عمل ہوگئیں۔ لسانی اور مسلکی بنیادوں پر وسیع پیمانے پر قتل اور تشدد عام ہو گیا۔ مقتدر حلقوں کو اقتدار کی طوالت مقصود تھی۔ اس لیے لسانی اور دینی و مسلکی تنظیموں کی سرگرمیوں سے صرف نظر کی۔ جس کی وجہ سے خصوصًا کراچی اور وطن عزیز کے طول عرض میں جذباتی، جنونی اور سفاک معاشرے نے جنم لیا۔

شہر مں خوف و ہراس کی فضا چھانے کا سب سے بڑا اثر نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر پڑا۔ تعلیم جو انسان کو شعور عطا کرتی ہے اور غیر نصابی سرگرمیاں جو صبر و تحمل اور برداشت کو پروان چڑھاتی ہیں، ماند پڑنے سے معاشرے میں جذباتیت، جنونیت اور سفاکیت پروان چڑھتی گئی۔ گو کہ ایم کیو ایم سمیت دیگر لسانی و مسلکی کالعدم تنظیموں کے خلاف 1990 سے شہر میں موجود ہونے کے با وجود رینجرز نے پولیس کے تعاون سے 2013 میں آپریشن شروع کیا اور ان تنظیموں سے جرائم پیشہ اور وطن دشمن عناصر کو پاک کر دیا۔ لیکن معاشرے میں جو جذباتیت، جنونیت اور سفاکیت پروان چڑھ چکی ہے۔ اس آپریشن کے بعد اور شہر میں مساجد و مدارس میں اضافے کے با وجود کمی نہیں ہو سکی۔

صورت حال یہ ہے کہ سکولوں اور مدرسوں میں استاد طلبہ کو مغلظات سے نوازتے ہیں، تشدد کرتے ہیں اور ساتھی طلبہ اور استاد اس سفاکانہ اور بے ہودہ عمل سے حظ اٹھاتے ہیں۔ جذباتیت کی انتہا یہ ہے کہ ہر طبقہ فی الوقت پولیس کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہے۔ چونکہ پولیس حراست میں صلاح الدین کی موت ہوئی ہے۔ ( جب کہ صلاح الدین اس قبل بھی کئی دفعہ اے ٹی ایم کارڈ مشینوں سے نکال چکا ہے، جن کی ویڈیوز بھی ہیں اور جیل بھی جا چکا ہے۔) واقعی پولیس کی حراست میں صلاح الدین کی موت انتہائی قابل مذمت اور تفتیش ہے۔

گزشتہ دنوں ایک کم عمر غیر مسلح چور کو شہریوں نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا اور استاد نے تشدد کر کے مبینہ طور پر میٹرک کے طالب علم کی جان لے لی۔ اس طرح کے لاتعداد واقعات ہیں، جب شہریوں اور استادوں کے تشدد سے رہزن، چور اور طالب علم ہلاک ہوئے ہیں۔

اعتدال ہی وہ راستہ ہے، جس پر چل کر فرد معاشرے کو جذباتیت، جنونیت اور سفاکیت سے رفتہ رفتہ نجات دلا سکتا ہے۔ جہاں پہلے سر شام شہر کراچی میں کھیل کے میدان سجتے تھے، نمائشوں اور میلوں کا اہتمام ہوتا تھا۔ وہی کھیل کے میدان، نمائشیں اور میلے شہریوں کی عدم دل چسپی اور خوف و ہراس کے باعث بے رونق نظر آتے ہیں۔ قومی، سماجی و فلاحی بہبود کے اداروں میں بھی کام کرنے والوں کا تعلق معاشرے سے ہی ہوتا ہے۔

اس لیے اداروں کو ہدف تنقید بناتے وقت معاشرے اور تعلیمی اداروں پر بھی ایک نظر ڈال لینی چاہیے کہ ان کیا حال ہے؟ کیا ان اداروں سے فارغ التحصیل طلبہ نے ڈگری محض روزگار کے لیے حاصل کی ہے یا معاشرے کے لیے کار آمد شہری بننے کا عزم بھی ان کے دل میں ہے کہ نہیں؟ ہر دو چار دن بعد ذرائع ابلاغ میں لکھاری کسی نہ کسی کے خلاف غم غصّے کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں اور اسی کو اپنا واحد فرض سمجھتے ہیں۔ لیکن مسئلہ پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ چونکہ معاشرہ خود جذباتیت، جنونیت اور سفاکیت کا نمونہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).