ذرا وادی شاران تک


انسانی زندگی بہت سے مراحل سے گزرتی ہے۔ ایک کا اختتام دوسرے کے آغاز کی نوید لاتا ہے یہی انسانی زندگی کی حقیقت ہے۔ اب کالج لائف کے ختم ہونے اور عملی زندگی میں داخل ہونے میں کچھ ہی دن باقی بچے ہیں۔ آج کل سارا دن یہی سوچ سر پہ سوار رہتی ہے کہ ان دوستوں کے بنا زندگی کیسے گزرے گی، وہ میاں محمد بخش کہتے ہیں نا کہ ”جنہاں بنا اک پل سی نا لنگدا او شکلاں یاد نا رئیاں“۔ مگر ہم دوستوں نے اک دوسرے سے پیمان باندھ لئے تھے کہ چاہے جو بھی ہم لوگ سدا اک دوسرے سے رابطے میں رہیں گے، اور کالج کی حسین یادوں کو مزید خوبصورت بنانے کے لئے ہم نے ایک بیچ ٹور کا پلان بنایا۔

اس ٹور کے روح رواں میرے بھائی اور روم میٹ اسداللہ تھے۔ اس ٹور کی منیجمنٹ اور باقی کے انتظامات ان کے سپرد تھے، انہوں نے ہمارے لیے ”شاران ویلی“ کا انتخاب کیا۔ ہم سب لوگ ان کی اس تجویز سے مکمل طور پہ مطمئن اور شاداب تھے۔ ٹور کی خبر سننے کے بعد نہایت جوشیلے بھی مگر اصل مسئلہ گھر والوں سے اجازت لینے کا تھا، کیونکہ ہم اس سے پہلے ہنزا کا ٹور کر آئے تھے اور یہ بات ابھی گھر والوں کی یادداشت میں تازہ تھی سو اسی بات کو بہانہ بنا کے ہمیں روکا جا سکتا تھا۔ پھر سب نے منتیں سماجتیں کر کے گھر والوں سے اجازت لی اور یوں ہمارا شاران ویلی کا ٹور کنفرم ہو گیا۔

ہم 31 اگست بروز ہفتہ رات 2 بجے فیصل آباد سے روانہ ہوئے۔ کالج کے دوستوں کے قافلے میں اسداللہ، یوسف، صائم، متین، فرحان، فراز محسن اور راقم الحروف شامل تھے۔ جبکہ فی میل کولیگز میں علیشبہ، مومنہ، مائرہ اور دیگر شامل تھیں۔ سفر خراماں خراماں گزرنے لگا، دوستوں کی صحبت بے فکری اور ایسے میں اک خوبصورت سفر، انسان یادوں کا خزانہ اکٹھا کرنے میں مگن ہوتا ہے۔

ہمارا پہلا سٹاپ ایبٹ آباد تھا، وہاں سے ناشتہ کرنے کے بعد ہم کچھ دیر کے لئے بالاکوٹ میں رکے۔ ہماری اگلی منزل پارس تھی، یہاں سے ہم جیپوں میں بیٹھے اور ہم اپنی منزل ”شاران“ پہنچ گئے۔ پارس سے شاران تک کا سفر دو گھنٹے کا تھا۔ راستہ نہایت کٹھن اور رکاوٹوں سے بھرا ہوا تھا، جیپ کا یہ ٹریک بندے کو ایک بار کلمہ پڑھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اگر ڈرائیور اچھا ہو تو امید بندھی رہتی ہے کہ اللہ اللہ کر کے سفر کٹ جائے گا۔

شاران وادی کاغان کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ جو چیز شاران کو باقیوں سے منفرد بناتی ہے وہ ہے ”شاران فارسٹ“۔ شاران کے یہ جنگلات ہی اس کی اصل خوبصورتی ہیں، قدرت کا ایسا منظر ہم میدانی علاقوں والے کیا جانے، سو اللہ کی بڑائی بیان کرنے کے لئے ہم لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ ہم جب تقریبا 13 گھنٹوں بعد شاران پہنچے تو اتنے حسین مناظر دیکھ کر ہماری آدھی تھکن تو ویسے ہی دور ہو گئی تھی۔ قدرتی مناظر نے ہماری آنکھوں کو تراوٹ بخشی اور ہمارے ذہنوں سے تھکن کو مار بھگایا۔

شاران کے دو مقامات سیاحوں کے مرکز نگاہ ہوتے ہیں۔ ایک ہے ”شاران واٹر فال“ اور دوسرا ہے ”مانچھی ٹاپ“۔ ان دونوں مقامات پر پہنچنے کے لئے آپ کو ہائکنگ کرنا پڑتی ہے۔ ہم سیاحت کے شوقین لوگ دوپہر کا کھانا کھا کر شاران واٹر فال کی طرف چل دیے۔

شاران واٹر فال کے لئے آپ کو ہائیکنگ نیچے کی طرف کرنا پڑتی ہے، یعنی کہ واٹر فال دیکھنے کے لیے آپ کو نیچے اترنا پڑتا ہے، نیچے اترنا تو کافی آسانی ہے۔ یہ ٹریکنگ ایک گھنٹے میں ہو جاتی ہے۔ بارش کی وجہ سے ٹریک کافی گیلا تھا اور پاؤں پھسل رہے تھے۔ لیکن گائیڈ کی بدولت مرتے مرتے پہنچ گئے۔ شاران واٹر فال قدرت کا ایک شاہکار ہے۔ پیچھے سے دریائے کنہار بہتا آتا ہے اور اوپر پہاڑوں سے آبشار گرتی ہے، آبشار کا پانی جب دریا میں گرتا ہے تو جو آواز پیدا ہوتی ہے وہ کانوں میں ایسا رس گھولتی ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

پتھروں کے درمیان میں سے جب پانی بہتا ہے تو یوں محسوس ہوتا کہ کوئی فلمی منظر عکسبند ہو رہا ہے۔ کیونکہ ہم شاران لیٹ پہنچے تھے، جب ہم نے ٹریکنگ شروع کی تو ہمیں ہوٹل والوں نے سخت تنبیہہ کی تھی کہ جو بھی ہو آپ نے شام چھے بجے واپسی شروع کر دینی ہے۔ اس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ رات کو جنگلی جانوروں کا خوف ہوتا ہے۔

اب ہوا یوں کہ ہم پانچ چھے لوگ پہلے نکل آئے تھے، ہم سب سے پہلے آبشار میں پہنچے، تصاویر بنوائیں اور پتھروں پر بیٹھ کر باتیں کرنا شروع ہو گئے۔ جب باقی پہنچے تو اندھیرا ہو رہا تھا، ان کے دیر سے پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ آیک محترمہ نے ہیل پہن کر ہی ہائیکنگ شروع کر دی تھی، ان کو ساتھ لانے کے لئے سب کو دیر ہو گئی۔

آتے ہوئے چڑھائی اترنی تھی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، لیکن جب واپسی پہ چڑھائی چڑھنا شروع کی تو چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ اتنی مشکل چڑھائی اور وہ بھی پھسلن سے بھرپور۔ واپسی کا سفر تقریبا 1:30 گھنٹے میں ہوا۔ یہ ہائیکنگ کرتے کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی دل دھڑکنا بند کر دے گا۔

رات کو ہمارا پلان بون فائر اور باربی کیو کا تھا، باربی کیو کا زیادہ تر کام ہمارے ایکسپرٹ عبد المتین نے کیا تھا۔

اگلے دن ہمارا پلان مانچھی ٹاپ تک جانے کا تھا۔ یہ ٹریک تقریبا 3 گھنٹے کا تھا۔ مانچھی ٹاپ سے آپ شوگراں اور سری پائے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ہائیکنگ جان لیوا ہے۔ تین گھنٹے میں کبھی کبھار اتنی زیادہ ڈھلوان ہو جاتی ہے کہ بلینس کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ راستہ پتھریلا اور دشوار گزار ہے۔ لیکن ٹاپ کا نظارا دیکھنے کے بعد اپکو سفری مشکلات ذرا سی بھی یاد نہیں رہتی۔ مانچھی ٹاپ بس ایک تاحد نظر میدان ہے جو کہ سبز گھاس سے بھرا پڑا ہے، کچھ مقامات میں سفید بادل اور سبز گھاس آپس میں ملاپ کھاتے ہیں اور وہ منظر قابل دید ہوتا ہے۔

ہم چھے لوگ تو نیچے ہی رہے کیونکہ ہم کل کی ہائیکنگ کی وجہ سے پہلے ہی تھکن کا شکار تھے۔ یوسف نے نوڈلز بنا لیے تھے۔ ہم نے پھر شاران فارسٹ گھومنا شروع کر دیا۔ تا حد نظر درخت ہی درخت تھے۔ اس سے زیادہ خوبصورت قدرتی منظر ہم نے آج تک نہیں دیکھے تھے۔

شاران فارسٹ قدرتی خوبصورتی کا عملی نمونہ ہیں۔ آپ یہاں فطرت کو بڑی قریب سے دیکھ سکتے ہیں۔ بجلی اور موبائل نیٹ ورک تو ہے نہیں تو آپ کی جان سوشل میڈیا کے جھنجھٹ سے چوٹھی رہتی ہے۔ شاران جیسی پرسکون خاموشی تو اب اس دنیا سے تقریباً ناپید ہی ہو چکی ہے۔

شاران کی گھاس اتنی خوبصورت اور ہموار ہے کہ آپ جہاں چاہیں بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر آپ مطالعے کے رسیا ہیں تو کتاب پڑھنے کے لئے اس سے زیادہ اچھی اور پرسکون کوئی اور جگہ نہیں ہے۔

اگر آپ شاران جانا چاہتے ہیں تو یہ تجاویز ہیں، جن پر ضرور عمل کریں۔ سامان کم سے کم لے کر جائیں۔ ہوٹل کم ہیں سو بکنگ کروا کر جائیں۔ کھانے کا سامان ساتھ لے کر جائیں۔ اگر کوئی ہمسفر اچھا کک ہو تو کیا ہی بات ہے۔ پاوربنک لازماً ساتھ رکھیں۔ رات سردی ہو جاتی ہے تو ساتھ موٹی چادر ضرور رکھیں۔ رات کے لئے اچھا سا ٹارچ رکھ لیں۔ sanitizer ضرور رکھیں۔ ایکسٹرا بیگ لازمی رکھیں جس میں کوڑا کرکٹ پھینک سکیں۔ شاران کی خوبصورتی اس کی صفائی میں ہے۔ خدارا صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

وادی کمراٹ تب تک ہی خوبصورت تھی جب وہاں سیاح نہیں جاتے تھے، ہوٹل بھی کم تھے۔ اب وہاں ہوٹل زیادہ اور فطرت کم ہو گئی ہے۔ شاران بھی کمراٹ ہی کی طرح ہے۔ خوبصورت۔ فطرت کے قریب اور قدرتی خوبصورتی سے مزین۔ ہم اپنے عمل سے شاران کو کمراٹ بننے سے روک سکتے ہیں۔

اگر آپ شاران جانا چاہتے ہیں۔ لیکن آپ اسے صاف نہیں رکھ سکتے تو خدارا مت جائیے۔ اگر آپ صفائی کی اہلیت نہیں رکھتے تو گندگی پھیلانے سے گرہیز تو کر ہی سکتے ہیں۔ گورنمنٹ آف پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ ان علاقوں کی طرف خصوصی توجہ دے، شمالی علاقہ جات کی اکانومی ٹورزم سے وابستہ ہے، مگر یہاں ٹرانسپورٹ سے لے کر کھانے پینے اور رہائش کے بے انتہا مسائل ہیں، بہت سے لوگ آتے جاتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، خدا کرے اس جانب جلدی سے ہماری سرکار کی نظر کرم ہو اور ہم لوگ ٹورزم کو بغیر کسی خوف و خطر کے انجوائے کر سکیں۔

(مضمون نگار یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور میں، فائنل ائیر ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں ) ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).