حوالدار یا استاد


ٹیچر کلاس میں داخل ہوا۔ ایک بچے کو کھڑا کیا۔ اور پوچھا کہ اگر میں آپ کو ایک سیب اور ایک سیب اور ایک تیسرا سیب دوں تو آپ کے پاس کتنے سیب ہو جائیں گے۔ بچے نے جواب دیا کہ سر جی چار سیب ہو جائیں گئے۔ ٹیچر سمجھا کی بچے نے میرا سوال شاید غور سے نہیں سنا۔ لہذا ایک مرتبہ پھر ٹیچر نے سوال دہرایا۔ اس بار پھر بچے نے جواب دیا چار۔ اب ٹیچر نے محسوس کیا کہ شاید سٹوڈنٹ کو سیب پسند نہیں اس لیے صحیح جواب نہیں دے پا رہا۔

اب ٹیچر نے پھل کا نام تبدیل کیا۔ اور پوچھا کہ اگر میں آپ کو ایک مالٹا اور ایک مالٹا اور ایک مالٹا دوں تو آپ کے پا کتنے مالٹے ہو جائیں گے۔ سٹوڈنٹ نے کہا تین۔ اب ٹیچر بہت خوش ہوا۔ اور واپس سیب والا سوال دہرایا کہ اگر میں آپ کو ایک سیب اور ایک سیب اور ایک سیب دوں تو آپ کے پاس کتنے سیب ہوں ہوئے۔ بچے نے پھر کہا چار۔ ٹیچر کا رنگ نیلا پیلا ہوا۔ غصے کے مارے زبان باہر آنے لگی۔ آستین چڑھا کر استاد نے بچے کو خوب پیٹا۔ کہ کمبخت غلط جواب دیتے ہو۔ کچھ دیر بعد جب غصہ ٹھنڈا ہوا تو پھر پوچھا یہ تو بتاؤ چار سیب کیسے ہوں گے۔ بچے نے جواب دیا کہ استاد محترم ایک سیب میرے بیگ میں ہے۔ پوری کلاس میں قہقہ بلند ہوا۔ استاد نادم ہوا۔

یہ ہمارا بڑا المیہ ہے کہ ہم ری ایکٹ کرتے ہیں لیکن ریسپانڈ نہیں کرتے۔ ری ایکٹ میں بلا سوچے مجھے رد عمل ظاہر کر لیتے ہیں بعد میں غلطی کا احساس ہونے پر ندامت ہوتی ہے۔ جبکہ ریسپانڈ ایک سوچے سمجھے اور حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اپنا رد عمل دینے کو کہتے ہیں۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے ہے کہ لاہور کے امیرکن لائسٹف سکول میں ایک ٹیچر نے ری ایکٹ کیا۔ جس سے ایک بچے حافظ حنین بلال کی جان چلی گئی۔ استاد کا کام تو بچوں کی جان بچانا ہوتا ہے۔ جان لینا نہیں۔

یہ کوئی سرکاری سکول یا مدرسہ نہیں تھا۔ بلکہ ایک انگلش میڈیم بھاری بھرکم فیس والا سکول تھا۔ جس کا نظام تعلیم گیرژن لیول کا ہے۔ جبکہ ہمارے سرکاری و دیگر نیم سرکاری لور اور مڈل کلاس سکولوں کی حالت انتہائی دگرگوں ہے۔ اب بھی ایسے اساتذہ کی کثرت پائی جاتی ہے جو سزا دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ جن کے فرسودہ ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی ہے کہ مار کے بغیر نہ پڑھایا جا سکتا ہے اور نہ کنٹرول کیا جا سکتا یے۔ ایسے ٹیچرز کی بھرمار ہے جو کلاس میں شفیق رحم دل استاد کی بجائے ہٹلر کا کردار ادا کرتے ہیں۔

جن کو دیکھ کر بچوں کا پیشاب پینٹ میں ہی نکل جاتا یے۔ کئی بچے سکول صرف حوالدار اساتذہ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ ان جیسے اساتذہ کی وجہ سے صبح بچے سکول جانے کو جیل جانے سے زیادہ اذیت ناک سمجھتے ہیں۔ پرائمری کے معصوم بچوں کے سامنے جب دیوہیکل استاد اپنا رعب جھاڑتا ہے تو بچوں کا کانفیڈنس زیرو پر چلا جاتا ہے۔ کلاس میں بچوں کو سوال کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ استاد کبھی ہنس کر بات کرنا اس لیے گوارا نہیں کرتا کہ اس کے اپاہچ دماغ کے مطابق بچوں کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کی وجہ سے بچے سر پر چڑھ جاتے ہیں۔ پھر اساتذہ کا ادب نہیں کرتے۔ اپنا ادب کروانہ کا طریقہ صرف لاٹھی، تھپڑ، مکے اور ٹھڈے کے استعمال میں تلاش کیا ہے۔ ذاتی مشاہدہ کے مطابق کئی ایسے بچوں کو دیکھا گیا یے کہ انہوں نے اساتذہ کے رویے کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ چھوڑ دیا۔

استاد کی ایک چھوٹی سی تعریف  بچے کی زندگی بدل سکتی یے۔ جدید دنیا میں استاد سینٹرل کردار نہیں ہوتا بلکہ بچے کلاس میں سینٹرل کردار ہوتے ہیں۔ استاد کو ہمیشہ سمائلنگ فیس کے ساتھ کلاس میں داخل ہونا چاہیے۔ استاد کا کام بچوں میں تخلیقی صلاحیتیں پیدا کرنا ہوتا ہے یہ تب ہی ممکن ہے جب اساتذہ بچوں کے ساتھ گھل مل جائیں۔ ان کا خوف ختم کریں۔ جمہوری انداز تدریس اپنائیں۔ بچوں کو اپنائیت کا احساس دیں۔ اصل میں استاد اتالیق ہوتا ہے۔

وہ سٹوڈنٹس کی زندگی میں راہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔ طالبعلم مختلف مشورے لیتے ہیں۔ کتابوں کا انتخاب استاد کرتا ہے۔ کلاس کے اندر ٹیچر سبجیکٹ پڑھاتا ہے جبکہ کلاس کے باہر اس کا اپنا الگ روم ہوتا۔ جہاں طالبعلم اپنے مسائل استاد کے ساتھ شئیر کرتے ہیں۔ وہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ استاد ایک کونسلر بھی ہوتا ہے۔ موٹیویٹر کا کردار بھی اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔ یہ کچھ خواص ہیں جنہیں جدید دنیا نے تسلیم کر کے لاگو کیا ہے۔ ان کا تعلیمی معیار تب ہی بلند ہوا ہے۔ یہ کرکٹرز جب تک ہمارے اساتذہ میں نہیں ہوں گے، تب تک اسی حافظ حنین جیسے طالبعلم قتل ہوتے رہیں گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).