گدلے پانی کے قطرے کی کہانی


میں قطرہ ہوں
میں پانی کا ایک قطرہ ہوں
نہ تو بارش کا
نہ ہی شبنم کا
اور نہ ہی آنسو کا قطرہ ہوں
میں گدلے پانی کا قطرہ ہوں

جب کوئی نوجوان
کسی مہہ جبیں ’کسی نازنین‘ کسی دخترِ خوش گل
کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے
اسے بوسہ دیتا ہے
اسے گلے لگاتا ہے

تو میں وفورِ جذبات میں
رقص کرتا ہوا
محبت کا جشن مناتا ہوا
جسم سے باہر آ جاتا ہوں

چونکہ میں گدلا ہوں اس لیے
نجانے کتنے پنڈت اور پادری ریبائے اور مولوی
اس الجھن میں رہتے ہیں کہ
میں پاک ہوں یا ناپاک

وہ میرا ظاہر دیکھتے ہیں باطن نہیں
کیا وہ نہیں جانتے
میں امرت ہوں
میں آبِ حیات ہوں
میرے من میں نئی زندگی کے راز پوشیدہ ہیں

میری قدر
وہ عورتیں جانتی ہیں
جن کے دل میں
ایک ماں بننے کی آس ’امید اور آرزو
انگڑائیاں لیتی ہے

وہ مجھے
اپنے رحم کی آغوش میں
اس طرح چھپا لیتی ہیں
جیسے کوئی سیپ
بارش کے قطرے کو اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے
اور گوہر بناتی ہے

رحم کی آغوش
میری نو مہینے سات دن
پرورش کرتی ہے
اپنا خون پلاتی ہے
مجھے انسان
مجھے اشرف المخلوقات بناتی ہے

میری قدر اور قیمت
وہ سیکولر سائنسدان بھی جانتے ہیں
جو
گناہ و ثواب سے بالا تر ہو کر مجھے
منجمد کر کے
سپرم بینک میں محفوظ کر لیتے ہیں

ان کے پاس
وہ عورتیں آتی ہیں
جو ماں بننا چاہتی ہیں
لیکن
برسوں کی شادی ’خواہش اور کوشش کے باوجود
محروم رہتی ہیں

وہ سائنسدان
محرم اور نامحرم کا سوچے بغیر
ان کے رحم کے جام میں
ٹیسٹ ٹیوب کی صراحی سے
قطرہ قطرہ
آبِ حیات
انڈیلتے ہیں

تا کہ حمل ٹھہرے
اور اس عورت کا ماں بننے کا خواب
شرمندہِ تعبیر ہو
جہاں کئی عورتوں کی زندگی کی زلفیں سلجھ جاتی ہیں
وہیں کئی عورتوں کی زندگیاں الجھ بھی جاتی ہیں

جہاں جدید سائنس نے
کئی مسائل کا حل تلاش کیا ہے
وہیں نئے مسائل بھی کھڑے کر دیے ہیں

کل ٹورانٹو کے ایک ہسپتال میں

ڈاکٹر سمتھ نے اپنے مریض رچرڈ کو فون کیا اور کہا

آپ کے ایک سپرم سے تو

آپ کی بیگم جینیفر حاملہ ہو گئی تھیں

اور آپ کے ہاں آپ کا بیٹا ڈیوڈ پیدا ہوا تھا

آپ کا دوسرا سپرم ہمارے بینک میں تین سال سے منجمد ہے

آپ ہر سال اس کی پانچ سو ڈالر فیس ادا کرتے ہیں

آج سالگرہ کا دن ہے

فیصلہ کرنے کا دن ہے

آج آپ بتائیں

اسے ایک سال اور رکھیں

یا ضائع کر دیں

رچرڈ نے اپنی بیگم جینیفر سے پوچھا

اس نے کہا ایک بیٹا کافی ہے

دوسرا سپرم ضائع کر دو

پانچ سو ڈالر بچ جائیں گے

رچرڈ اور جینیفر کی باتیں

رچرڈ کی بہن سونیا سن رہی تھی

کہنے لگی

میری شادی کو بھی پانچ سال ہو گئے ہیں

میرے شوہر کے سمرم معذور ہیں

بھائی جان اپنا سمرم ضائع نہ کریں

مجھے تحفہ کر دیں

رچرڈ کافی دیر سوچتا رہا

پھر بولا

لیکن تم میری بہن ہو

تمہاری اور میری شادی نہیں ہو سکتی

یہ تو INCEST ہوگا

سونیا مسکرائی

ہم شادی تو نہیں کر رہے

نہ ہی ہم بستری کر رہے ہیں

یہ سب کچھ تو لیباٹری میں ہوگا

رچرڈ نے کہا دماغ مانتا ہے دل نہیں مانتا

میں نہیں چاہتا میرا بھانجا میرا بیٹا ہو

سونیا نے کہا

آپ بہت ماڈرن بنتے تھے

اس معاملے میں تو بالکل روایتی نکلے

آخر رچرڈ نے اپنے ڈاکٹر سمتھ سے مشورہ کیا

اب ڈاکٹر سمتھ نے کل صبح ایک خاص میٹنگ بلائی ہے

جس میں میرے مستقبل کا فیصلہ ہوگا

اس میٹنگ میں رچرڈ بھی ہوگا۔ سونیا بھی۔

ڈاکٹر سمتھ بھی ہوگا ایک پادری بھی

اور مہمانِ خصوصی ایک GENETICIST بھی

اس میٹنگ میں فیصلہ ہوگا کہ

مجھے ضائع کر دیا جائے

یا سونیا کے خواب کی تعبیر بنا دیا جائے

کل میرے ہونے یا نہ ہونے کا

کل TO BE OR NOT TO BE کا فیصلہ ہوگا

میں ایک گدلے پانی کا قطرہ ہوں

میری کوکھ میں ایک کہانی ہے

دنیا میں سات ارب انسان ہیں

اور ہر انسان

ایک گدلے پانی کے قطرے کی کہانی ہے

جو دلچسپ بھی ہے اور گنجلک بھی

پیچیدہ بھی ہے پراسرار بھی۔

۔ ۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail