گل مہر کتاب پر تبصرہ


تکلیف سے تڑپتے لوگوں کے لیے کہیں کچھ فرشتے اتارے گئے ہیں، جو راحت کا سامان فری ڈیلیوری کے ساتھ اپنے کاندھوں پر لیے پھرتے ہیں۔ نہ تھکتے ہیں نہ انہیں اونگھ آتی ہے۔ خوش نصیبی یہ کہ آپ ایسے فرشتوں کو دیکھ، سن اور محسوس کر سکتے ہیں۔

نگاہ حسن سے دنیا میں بے رنگی دیکھنے والے شکوہ کرنے کے بجائے خود رنگ بھرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ جن کی آہ عرش سے ٹکرا کر ان کی سماعتوں میں اترے تو سمجھو بیمار صحت یاب ہو کر تنو مند ہوا۔

ان کے پردے سے ہی نکلیں گے خدا و اہر من
دیکھ لینا تم جو انساں کو کبھی سمجھا گیا
میر احمد نوید

کتاب پسند آئے تو اپنی رائے ضرور دینا چاہیے، تا کہ پڑھنے والے بھی مذکورہ کتاب سے استفادہ کر سکیں۔ کتاب پر تبصرے کی پہلی شرط اسے پڑھنا، محسوس کرنا، لیکن محسوسات کو قلمبند کرنا آسان نہیں ہو تا، تبصرہ ایک بے حد مشکل کام ہے۔ اور پھر ایسی، جس میں صاحب کتاب کی حاضری تو لگی ہو لیکن اس کی موجودگی ظاہر نہ ہو رہی ہو۔ کبھی خود سے خود میں غائب کبھی خود سے خود میں حاضر والا معاملہ ہو تو آپ سرا پکڑتے رہ جاتے ہیں کہ کہاں سے آغاز کریں۔

آج ہم ذکر کر رہے ہیں ڈاکٹر شیر شاہ سید صاحب کی مرتب کردہ ایک کتاب کا جس میں دو ایماندار ڈاکٹرز کی داستان حیات رقم کی گئی ہے۔

ایمانداری اگر کسی چڑیا کا نام ہے تو اس میں بے نیازی، سچائی، غیرت مندی اور ہنر مندی کے پنکھ بھی جوڑنے پڑیں گے۔ ورنہ یہ چڑیا بنا پنکھ محض ایمان کے سہارے انجانی آواز میں چوں چوں کر کے لوگوں کے گھٹنوں کو کمزور کرتی رہے گی۔

شیر شاہ سید صاحب نے یہ کتاب نہ تو یادداشتوں کے سہارے لکھی نہ خوش گوار تعلقات کی بنا پر۔ انہوں نے یہ کتاب دل سے لکھی تاکہ دلوں تک پہنچے۔

گل مہر، میر پور خاص میں ڈاکٹر صادقہ جعفری کا آبائی گھر ہے، شاہ صاحب نے ڈاکٹر صادقہ جعفری کے ساتھ اس گھر میں چند گھنٹے گزار کر اس عرصۂ حیات کو محسوس کیا، کہ جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے زندگی کا ایک حسین دور بسر کیا۔

اس کتاب میں ان کے دوستوں، رشتے داروں، چھوٹوں، بڑوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والے، سینئیر، جونیئر ڈاکٹرز اور ان کے شاگردوں نے بڑی محبت اور عقیدت سے اپنے تاثرات بیان کیے ہیں۔

ڈاکٹر نعیم عون جعفری امریکہ سے اور ڈاکٹر صادقہ لندن سے پڑھ کر آئیں۔ دونوں پروفیسر بھی تھے۔ پروفیسر جعفری اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ تعلیم حاصل کرنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ خود طالب علم کو اٹھانا چاہیے۔ کیوں کہ سب سے آخر میں سب سے زیادہ فائدہ اسی کو ہوتا ہے۔ پڑھانے والے کی ذمہ داری اتنی ہونی چاہیے کہ وہ پڑھنے والے کے دل میں پڑھنے کی لگن اور تحقیق و جستجو کا چراغ جلا دے، اسے سوال کرنے پر آمادہ کرے۔ جس دن وہ سوال کرے گا اسی دن وہ جواب بھی تلاش کر لے گا، پھر یہ عادت نہیں چھوٹتی ہے۔

صادقہ جعفری نے اپنی طالب علموں کو زندگی کے امتحان میں کامیابی کے لیے نصیحت کی کہ ”زندگی کے امتحان میں کامیابی اسی وقت ہوتی ہے جب زندگی گزارنے والے کا رویہ درست ہو۔ درست رویہ وہی ہو تا ہے جس کی بنیاد ایمانداری پر ہوتی ہے۔ جس کا مقصد لو گوں کی مدد اور اپنے پیشے سے انصاف کرنا ہوتا ہے۔ سماج میں رہتے ہوئے سماج کے مسائل کو جہاں جہاں حل کرنے میں مدد دی جا سکتی ہے اسے غیر مشروط طور پر مہیا کرنا ہوتا ہے۔“

کتاب میں ہم نے پڑھا کہ پروفیسر نعیم عون جعفری اور صادقہ جعفری کی ریٹائر منٹ کے بعد حسب روایت ان کی خدمات کے اعتراف میں تقریب پذیرائی کا انعقاد کیا گیا، ہال وقت مقررہ سے پہلے بھر چکا تھا، حاضرین محفل ان دو شخصیات کے لیے ادب و احترام کے جذبے سے سرشار تھے۔ شاگرد اپنے بچوں کو ان سے ملانے لائے تھے، ان کے ساتھ تصویر کھنچوا رہے تھے۔

ایسا ہی منظر چار دسمبر کو مذکورہ کتاب کی رونمائی کی تقریب میں دیکھا گیا۔ سارا ہال ان سے محبت کرنے والوں (جن میں کثیر تعداد ڈاکٹرز کی تھی) سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ ڈاکٹر نعیم عون جعفری اور ڈاکٹر صادقہ جعفری کے بارے میں اپنا تعلق بتائے۔ ان کی باتیں کرے۔

یہ دو ڈاکٹرز جن کے بارے میں ان کے رشتے داروں دوستوں، ہم پیشہ افراد نے ان کے ساتھ بیتے لمحات، ان کے اخلاق، کردار، اور ان کے پیشے سے اخلاص کا ذکر اس کتاب میں کیا ہے۔

ڈاکٹر طلعت رضوی نے بتا یا کہ ڈاکٹر صادقہ حد درجہ ایماندار، انہیں روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں انہیں اس بات کا دکھ ہو تا ہے کہ طب جیسے معزز پیشے سے وابستہ افراد دولت کما نے کے لیے غلط راستے پر چل پڑتے ہیں۔

ڈاکٹر فاطمہ جواد جو ایک سینئر ڈاکٹر ہیں، SIUT میں بھی کام کرتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ دونوں میاں بیوی طب کی دنیا کے بڑا نام ہیں۔ جنہوں نے بغیر کسی لا لچ کے ہمیشہ سائنٹفک کاموں پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔

ڈاکٹر صادقہ کو ہمیشہ اس بات کا قلق رہا کہ ماؤں کی اموات نہیں رک رہیں، مگر افسوس حکومتیں بھی اس مسئلے پر سنجیدہ نہیں۔ ماؤں کی شرح اموات کو کم کرنے کے لیے وہ ہر موقع پر اپنی آواز بلند کرتی اور سماج میں آگاہی پھیلاتی رہیں۔

ڈاکٹر عالیہ ان کی آنکھوں کو اسکیننگ آنکھیں کہتی ہیں جب بھی کوئی خط، مضمون یا پرپوزل ان کے پاس جا تا ہے تو ان کی آنکھیں سیدھی ان کی غلطیوں کا پکڑ لیتی ہیں تصحیح کرنے کے بعد خوش دلی سے سمجھاتی ہیں۔

ڈاکٹر صادقہ کو اپنی تعریف سننا پسند نہیں نہ اپنے بارے میں زیادہ بات کرتی ہیں۔ انتہائی سادہ مزاج، لیکن کتاب میں پڑھا کہ ایک بات اپنے بارے میں وثوق سے کہتی ہیں کہ میری انگریزی تم سب سے اچھی ہے۔ سوچو جس بات کا اپنے بارے یوں اعتماد سے اظہار کر رہی ہیں تو کیسی اچھی انگلش ہو گی۔

میاں بیوی کی محبت خاص طور پر ان کے میاں کی ان سے محبت کے بارے میں پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ کہتی تھیں، میں ان سے پہلے دنیا سے چلی گئی تو جی نہ پائیں گے۔ اور وہ واقعی ان سے پہلے دنیا سے گئے۔

صادقہ جعفری کسی کے کہے ہوئے بیان کو فوراً تسلیم نہیں کرتیں، اس کا سائنسی ثبوت بھی مانگتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کے مشہور تحقیقی مضمون ”مری ہوئی عورتوں کی آمد“ کا محرک وہ خواتین تھیں جو زچگی کے بعد مسائل کا شکار ہو کر مردہ حالت میں اسپتال کے دروازے تک پہنچیں۔ یہ عورتیں کوئی بہت دور سے نہیں آ رہی تھیں۔ یہ پانچ سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر تھیں۔ ان کی موت کی وجہ طبی نہیں بلکہ ان کا سبب معاشی، سماجی، اور ثقافتی روایات ہیں۔ بہت سی عورتیں اس لیے مر جاتی ہیں کہ ان کی ساسیں شدید ضرورت میں بھی اپنے گھر کے مردوں کی کام سے واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ جہالت اموات کی بڑی وجہ ہے۔ جو یہ سمجھنے ہی نہیں دیتی کہ ماں کو کب مدد کی فوری ضرورت ہے۔ افسوس کہ حکومت بھی اس اہم مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی۔

یہ بظاہر دو مسیحاؤں کی داستان حیات ہے، لیکن کتابی شکل میں تین مسیحاؤں کی کوششوں کا دخل ہے۔ ڈاکٹر صادقہ جعفری اور ڈاکٹر نعیم عون جعفری اس کتاب کی بنا ہیں۔ اور شہر در شہر کرے کار مسیحائی انجام دینے والے ڈاکٹر شیر شاہ اس کے خالق۔

یہ کتاب نہیں انسانیت کا ایک سبق ہے۔ یہ کتاب دو مسیحاؤں کی زندگی کا احاطہ کرتی ہے۔ درد مند مسیحائی کے جب چار ہاتھ مل جائیں۔ تب دکھ تکلیف تو کیا رنج ملامت سب دور ہو جاتے ہیں۔

اس کتاب میں محض دو شخصیات کی زندگی، کردار اور کارناموں کا ہی بیان نہیں بلکہ یہ تاریخ، ادب، جغرافیہ سائنس، فلسفہ، عمرانیات، سماجیات، بشریات، علم آثار قدیمہ، کلچر اور ثقافت جیسے موضوعات کا بھی احاطہ کرتی ہے۔

صفحہ نمبر 94 میں صادقہ جعفری کے قدیم شہر میر پور خاص کے بارے میں ایک دلچسپ تحقیقی مضمون آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔

فضلی سنز سے درج ذیل نمبر پر رابطہ کر کے یہ کتاب حاصل کی جا سکتی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے حقیقی معنوں میں زندہ انسانوں سے ملیے۔ زندگی کی کتاب میں انسان ہی سب سے افضل ہے۔

کتاب کی قیمت 1000 :
رابطہ: 03362633887


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments