ہم چاہتے ہیں تجھے اے زندگی


زندگی۔ زندگی کیا ہے؟ ہم سب اس وقت زندہ ہیں، حرکت میں ہیں۔ تبھی اس سوال ”زندگی“ کی کھوج میں ہیں۔ زندگی دراصل حرکت کا نام ہے۔ اگر یہ حرکت ختم ہو جائے تو جمود کی اس حالت کو ہم موت کہتے ہیں۔ ہم سب زندہ رہنا چاہتے ہیں، یہاں کوئی شخص بھی ایسا موجود نہیں جو مرنا چاہتا ہو۔ میں بھی اسی اکثریت میں سے ایک ہوں۔ لیکن آگے جانے سے پہلے اس نقطے پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ ہم وہ ہیں جو زندہ رہنا چاہتے ہیں، موت سے خائف ہیں جبکہ ہم وہی ہیں جو زندگی کو چاہتے ہیں پر سمجھنے سے اب تک قاصر ہیں۔ تو اب سوال یہ اٹھا کہ جس چیز کی اصلیت سے ہم واقف نہیں ہیں، اس کی محبت میں گرفتار کیوں ہیں؟

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اگر زندگی کے سائیکل کو دیکھیں تو یہ بالکل ایک رولرکوسٹر رائیڈ ہے۔ یہاں کچھ بھی ایک سا نہیں رہتا، ہر چیز ایک طرف گھٹ رہی ہے تو دوسری طرف بڑھ رہی ہے۔ دنیا ہر لمحہ تغیر ہے۔ یہاں کوئی بھی چیز مستقل نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح ہماری زندگی میں پیش آنے والا ہر واقعہ بھی اپنے اندر ایک نیا پن سموعے ہوئے ہے۔ ہم کبھی کسی چیز سے خوش ہوتے ہیں تو کبھی کسی حادثے سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اب جب یہ بات ہم جانتے ہیں کہ یہاں ہر چیز تبدیل ہو رہی ہے تو پھر خوشی کے لمحات میں ہم شکر سے دور کیوں ہو جاتے ہیں اور غم کے لمحات میں امید کا دامن کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟

بھئی! بات یہاں یقین کی ہے۔ ہمارا اس بات پر یقین پختہ نہیں ہے کہ یہ جو ہماری زندگی ہے دو رخوں پر قائم ہے۔ ایک رخ مثبت ہے اور دوسرا رخ منفی ہے جیسے خوشی اور غم، محبت اور نفرت، امارت اور غربت، سچ اور جھوٹ۔ تو اب اگر کسی کی زندگی میں منفی رخ غالب ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مثبت رخ مغلوب ہے، اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا موقع چھینا نہیں ہے بلکہ اگر آدمی چاہے تو مثبت رخ کو بیدار کر سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی کی زندگی خیر کے پیٹرن پر کام کر رہی ہے تو وہ اپنے ارادے کو شامل کر کے شر کے پیٹرن کو عمل میں لا سکتا ہے۔ اس مثال کی مدد سے اب ہمیں یہ بات سمجھنے میں آسانی ہو گئی کہ اگر ہم آج دکھی ہیں تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم کبھی دوبارہ خوش نہیں ہو سکیں گے۔ دوسرا رخ یعنی خوشی ہمارے اندر ہی قید ہے ضرورت ہے تو بس اس تک پہنچنے کی اور وہ صرف تب ہی ممکن ہے جب ہم اپنے اندر جھانکیں گے، خوشی کو باہر تلاش کرنے سے ہمیں سوائے نا امیدی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ جو چیز جہاں رکھی گئی ہو وہیں سے برآمد ہوتی ہے۔

لوگوں سے یا چیزوں سے اگر ہم اپنے حصے کی خوشی حاصل کرنا چاہیں گے تو ہم اپنے آپ کو کھوتے چلیں جائیں گے، وہ اس لئے کہ ان کے پاس ہمارے حصے کی خوشی موجود ہی نہیں ہے، وہ تو ہمارے ہی پاس ہے، چھپی ہوئی۔ اگر اس ساری دنیا میں ہمیں کوئی خوش رکھ سکتا ہے تو وہ ہے۔ جی! آپ بالکل صحیح سوچ رہے ہیں، ہم خود۔ حیرت ہو رہی ہے نا لیکن یہی حقیقت ہے اور یہی زندگی ہے جسے ہم سب جینا چاہتے ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم دو لمحے رک کے پہلے اسے سمجھ لیں تو اسے جینا آسان ہو جائے گا۔ کیوں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟ دو لمحے رکیں گے نا؟

دو لمحے رکنے کا اور اپنے اندر کھوج لگانے کا اب تک کا سب سے آسان طریقہ مراقبہ ہے۔ مراقبہ ایک ایسا عمل ہے جس میں آدمی آنکھیں بند کر کے کچھ دیر کے لئے ماحول سے قطع تعلق ہو جاتا ہے اور اپنے اندر کی کھوج لگاتا ہے۔ ارباب مذہب و ملت کا کہنا ہے کہ مراقبہ کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل یہ ذہنی تفکر اور یکسوئی کی ایک مشق ہے۔ امید ہے کہ اب ہم نئی سوچ کے ساتھ زندگی کی طرف قدم بڑھائیں گے۔

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ ‎خوش رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).