بابا جی آپ کی داستان سرائے اجڑ گئی


برصغیر کے لوگ توہمات کو یوں سینے سے لگائے لگائے پھرتے ہیں جیسے حاصل زندگی ہوں۔ چند برس ہوئے نانی نہیں رہیں ان کے بے حد قریب ہونے کے ناتے ان کی جدائی بہت گراں گزری، جب کوئی اپنا مر جائے قبرستانوں سے انسیت ہو جاتی ہے خوف جاتا رہتا ہے یہ میں نے تب محسوس کیا۔ میری بھرپور ضد سے زچ ہو کر امی مجھے قبرستان لے گئیں مگر کسی وجہ سے میری طبعیت بگڑ گئی، پھر کیا تھا امی پر طعنوں کی بارش کر دی گئی ”جانتی نہیں پہلی اولاد پر ایسی مافوق الفطرت چیزوں کا اثر زیادہ ہوتا ہے“ اور پھر قبرستان میرے لیے شجرمنوعہ کا درجہ رکھنے لگا۔

اک عرصہ ہوا میں نے اشفاق صاحب کی دیگر کتب کے بعد زاویہ پڑھنے کی کوشیشں کی تھی بے حد آسان اسلوب بیان کی یہ کتاب ہضم آنا اسی قدر بھاری تھی۔ میں جو ہر کتاب کو ایک ہی سانس میں پڑھ لینے کی خواہاں ہوتی ہوں زاویہ کے اسباق میرے پاؤں کی زنجیر بن گئے۔ دل چاہے کہ اک اک سطر ٹھہر ٹھہر کے مزہ لے کر پڑھی جائے۔ نتیجتاً وہ کتاب میرے لیے مطالعہ کے بعد سویٹ ڈش کی حیثیت اختیار کر گئی۔ دیگر کتب کی ورق گردانی کر کے زاویہ کو گھونٹ گھونٹ پیتی۔ جب ہم دوستوں نے منصوبہ بنایا کہ ماڈل ٹاؤن ایے بلاک میں واقع قبرستان میں بابا جی کی لحد پر حاضری دی جائے گی تو میں تذبذب کا شکار ہو گئی۔ چند لمحے وہموں نے آن لیا۔ پھر بہتری اسی میں جانی کے گھر والوں سے اس مشن کو مخفی رکھا جائے گا۔

قبرستان کے داخلی دروازے پر چلنے والی روش کافی سیدھا چل کے اچانک بائیں اور مڑتی ہے وہیں سے چند قدم پر بابا جی آرام فرما رہے ہیں۔ ان کے پاؤں میں بانو آپا پڑی ہیں اور بانو کے ساتھ ان کے منجھلے بیٹے انیس کی قبر ہے۔ اشفاق صاحب کی قبر پر کتبہ نصب ہے جبکہ بانو آپا کی وصیت کے مطابق ان کی قبر کی یہی پہچان ہے کہ وہ ٹھیک اشفاق صاحب کے پاؤں میں ہے۔ پہلی بار وہاں کھڑے ہو کر کیا محسوس ہوا شایدالفاظ میں بیان نہ ہوسکے۔

ہولے ہولے دل پگھل رہا تھا اور حلق میں اٹک رہا تھا۔ آنکھیں دھندلا رہی تھیں میں رونہیں رہی تھی آنسوں کے راستے سرنڈر کر رہی تھی۔ میرے اندرکچھ ٹوٹ رہا تھا۔ شاید برسوں کا اضطراب اطمنان میں ڈھل رہا تھا۔ بے سکونی کو قرار آ رہا تھا۔ چند لمحوں میں میں نے وہ پایا جس کے لیے عمر بھر تڑپ رہی تھی۔ میرے اندر اک گہرا سناٹا۔ سکون۔ اچانک اشفاق صاحب کی قبر کے کتبے پر نگاہ رکھے گئی اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے۔ میرے دل نے گواہی دی سچ کہا کرتے تھے۔ آپ پردہ کر کے بھی لوگوں میں آسانیاں بانٹ رہے ہیں، آسودگی تھما رہے ہیں۔

چند ماہ ہوئے معمول بن گیا ہے ہفتہ دس دن کے بعد دل اداس ہونے لگتا ہے اور میں خود کو قبرستان میں پاتی ہوں۔ پچھلے دنوں بانو آپا کی ”راہ رواں“ نظر سے گزری، داستان سرائے بارے اک اک چیز از بر ہو گئی۔ اک روز قبرستان سے واپسی پر ہم دوستوں نے داستان سرائے کا منصوبہ بنا لیا۔ مگر عجیب جھجھک تھی، ہم دس پندرہ منٹ 121 سی کے سامنے کھڑے رہے، تبصرے کرتے رہے یہ ہمسائے کتنے خوش قسمت تھے؟ ہم پچیس تیس سال لیٹ کیوں پیدا ہوئے؟

مگر دروازہ کھٹکھٹانے کی ہمت نہ ہو پا رہی تھی۔ میرے ساتھی نے بے ساختہ کہا اگر یہ ہوتا ہے کسی اک شخص کے جانے کا انجام آج بابا جی ہوتے تو میں اک مان سے دروازہ کھٹکھٹاتا گویا صرف میں ہی اشفاق صاحب کو جانتا تھا۔ جھجھکتے ہوئے دستک دی تو نوید صاحب دروازے پر برآمد ہوئے، سلام دعا کے بعد چند باتیں اور پھر یہ خواہش کہی کہ داستان سرائے کے اندر لے چلئے۔

نوید صاحب کی معیت میں گھر میں داخل ہوئے تو دیکھتے کیا ہیں دائیں ہاتھ لان ہے جہاں لوہے کی کرسیاں پڑی ہیں، یادوں کا فلش بیک ہوا اور نظر آنے لگا بانو آپا اک کرسی پے بیٹھی دھوپ تاپ رہی ہیں، صحن سے بیرونی دیوار پر بابا جی کی بلی کا ہیولا برآمد ہوا جس کے اسی دیوار پھلانگ کے جانے سے وہ پریشان ہوجایا کرتے تھے۔ لان پھلانگ کر سبسے پہلے اک بڑا سا کمرہ آتا ہے دروازے سے داخل ہوتے ہی سامنے دیوار پر ایک طرف بابا جی اک طرف بانو آپاکی سکیچ کے جیسے بڑی سی تصاویر آویزاں ہیں۔

صوفے اسی ترتیب سے پڑے ہیں جیسے بانو نے رکھوائے تھے۔ فرش سے لے کر ہر چیز پر گرد کہ تہہ لگی ہے۔ دل بوجھل ہو گیا مذید کچھ دیکھنے کی ہمت نہ رہی بابا جی 7 ستمبر کو آپ کو ہم سے بچھڑے پندرہ برس مکمل ہوئے مگر یوں محسوس ہونے لگا ہے جیسے یہ گرد صفائی نہ ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ اشارہ ہے آپ کی داستان سرائے جانے کب سے اجڑ گئی ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).