ہندوستان کے سفر کی کچھ یادیں


جب ہمارے والد صاحب کا انتقال ہوا تو میری عمر چھ سال تھی۔ آہستہ آہستہ ان کی آواز بھی بھول گئی اور چہرہ بھی۔ ایک فریم کی ہوئی تصویر ڈرائنگ روم میں‌ رکھی ہوتی تھی جس میں‌ وہ سوٹ بوٹ پہن کر تاج محل کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اس زمانے میں‌ کلر فوٹوگرافی اتنی عام نہیں‌ تھی اور یہ ایک بلیک اینڈ وائٹ فوٹو تھا جس کو ہاتھ سے پینٹ کیا ہوا تھا۔ وہ اس دنیا سے باہر کی کوئی جگہ لگتی تھی۔

انڈیا گھومنے جانا اور تاج محل دیکھنا بچپن سے میری بکٹ لسٹ میں‌ تھا۔ بہت مشکلوں سے ویزا ملا۔ نئے اصول یہ ہیں‌ کہ امریکی شہری ہونے کے باوجود پاکستان میں‌ پیدائش کی وجہ سے یا تو آپ پاکستانی شہریت چھوڑ دیں یا پھر گرین پاسپورٹ پر سفر کریں‌۔  والد انڈیا کی پیدائش، ہماری پاکستان کی اور بچے امریکی۔ یہاں‌ دور سے ہمیں‌ برصغیر ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان سولہ سال سے جانا ہی نہیں‌ ہوا۔ پچھلے سال ستمبر میں‌ ہم لوگ کافی ساری محفوظ رہنے کی نصیحتیں سن کر انڈیا گئے۔ نئی دہلی میں‌ اترے اور ممبئ سے واپسی کا جہاز پکڑا۔ جہاز میں‌ مزے کا کھانا تھا۔ میں‌ نے ایلس کو بتایا کہ یہ اچار ہے، دھیان سے کھانا، یہ چکن بریانی ہے وغیرہ۔

ہمارے ساتھ ایک تیس پینتیس سالہ انڈین بیٹھا تھا جو جرمنی سے کانفرنس میں‌ شرکت کر کے واپس دہلی جا رہا تھا، اس نے کہا کہ آپ ہمارے کھانے کیسے جانتی ہیں؟ میں‌ نے اس کو دیکھا کہ وہ نارمل پڑھا لکھا آدمی دکھائی دے رہا ہے تو اس کو کہا کہ امریکہ جانے سے پہلے ہم پاکستان میں‌ رہتے تھے۔ یہ سن کر اس کو سکتہ ہوگیا۔ کہنے لگا کہ میں‌ بتا نہیں‌ سکتا کہ آپ سے مل کر کتنی خوشی ہو رہی ہے، میں‌ آج تک اپنی ساری زندگی میں‌ کسی پاکستانی سے نہیں‌ ملا۔

جو لوگ پاکستان سے باہر رہتے ہیں‌ انہیں‌ معلوم ہے کہ انڈین ہمارے پڑوسی ہیں، رشتہ دار ہیں، ساتھ میں‌ کام کرتے ہیں اور دوست بھی ہیں۔ یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ برابر میں‌ ملک ہوتے ہوئے بھی اتنی بڑی دیوار ان دونوں‌ ملکوں‌ نے بیچ میں‌ کھڑی کرلی ہے کہ وہ ایک دوسرے کو انسان کی طرح‌ دیکھنے سے محروم ہوچکے ہیں۔ میں‌ سبزی والی بریانی کھا رہی تھی اور وہ چکن بریانی۔ میں‌ نے کہا کہ چکن بریانی تو کھاتے رہتے ہیں، آج سبزی ٹرائی کریں۔ اس نے کہا کہ سبزی والی بریانی تو میں‌ کھاتا رہتا ہوں، آج چکن ٹرائی کروں۔

جب تاج محل پہنچی تو ڈریس اور کالے جوتے پہنے اور فوٹوگرافر کو اپنے ابو کی تصویر دکھا کر کہا کہ ایسی تصویر بنا دیں۔ اس نے کہا کہ اب گھانس پر بیٹھنا منع ہے۔ وہاں‌ تار سے بارڈر بھی بنا ہوا تھا۔ دیکھئے کیسے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا بدلتی گئی۔ پھر ہم لوگ باری باری بینچ پر بیٹھ گئے اور اس نے تصویریں‌ کھینچیں۔ کچھ زیادہ سفید سفید سی تھیں۔ پھر خیال آیا کہ انڈیا میں  یہی رواج ہے۔ ساؤتھ ایشیا میں‌ چاہے اصل میں‌ رنگ سفید ہو یا نہ ہو لیکن تصویر میں‌ ضرور ہونا چاہئے۔

ہماری انڈین فیملی نے ایک جاننے والا ڈرائیور وین سمیت دلا دیا تھا جس نے ہمارے لئیے ڈرائیور، ٹورسٹ گائیڈ اور دکان داروں‌ سے چیزوں کی قیمت کم کرانے کی بحث کی خدمات سرانجام دیں۔ انڈیا بہت بڑا ہے، وہاں‌ بہت سارے رنگ برنگ کے لوگ رہتے ہیں، پچھلے پانچ ہزار سال کی تاریخ اور وقت کے بہتے ہاتھ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکتے ہیں۔ انڈیا، پاکستان اور امریکہ کے بیچ کی جگہ سا محسوس ہوتا ہے جہاں‌ ہم آرام سے گم ہوگئے۔

زیادہ تر لوگوں کو پتہ نہیں‌ چلتا تھا کہ ہم لوگ کہیں‌ باہر سے آئے ہیں۔ کوئی کوئی سمجھتا تھا کہ ہمارے بارے میں‌ کہ کچھ مختلف ہے۔ نئی دہلی، آگرہ، علی گڑھ، اجمیر شریف، جے پور، جودھ پور، ماؤنٹ ابو، راجستھان، احمد آباد، گجرات اور پھر ممبئی۔ ہمارا ڈرائیور کہتا ہے کہ میڈم آپ لوگ واہگہ بارڈر جائیں‌ گے؟ تو میں‌ نے اس کو کہا کہ نہیں‌ واہگہ بارڈر ہمیں نہیں‌ دیکھنا ہے کیونکہ وہ ہم نے پہلے سے ہی دیکھا ہوا ہے۔ انڈیا تو آپ پہلی بار آئیں تو واہگہ بارڈر کیسے دیکھ لیا؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔ لاہور کی طرف سے! کتنا آسان جواب ہے لیکن وہ نہیں‌ سمجھا۔ جس سائڈ کو کبھی دیکھا نہ ہو اس کی طرف سے سوچنا مشکل ہوتا ہے۔

دلی میں‌ انڈیا گیٹ، لال قلعہ، جامع مسجد، لوٹس ٹیمپل اور چاندنی چوک گھومنے گئے۔ یہ ساری جگہیں اس سے پہلے صرف ٹی وی پر دیکھی تھیں۔ اجمیر شریف گھوما۔  وہاں‌ پر لوگ قوالی گا رہے تھے اور جالیوں‌ میں لال دھاگے باندھ رہے تھے، میں‌ اپنا دھاگا اپنے ساتھ گھر لے آئی کیونکہ مجھے یقین ہے کہ ہماری زندگی بدل دینے کی سب سے زیادہ طاقت ہمارے اپنے اندر ہے۔ انڈیا میں‌ بہت بڑے اور بہت خوبصورت قلعے اور محل ہیں۔ مغلوں‌ کی شان و شوکت سے ان راجوں‌ مہاراجوں‌ کی شان و شوکت کچھ کم نہ تھی بس ہم نے ان کی تاریخ‌ نہیں‌ پڑھی۔ ابھی تک یہ راجہ وہاں موجود ہیں۔ یہ قلعے یورپ میں‌ موجود قلعوں سے کچھ کم نہیں تھے۔

ماؤنٹ ابو راجستھان میں‌ دلوارہ مندر دیکھا جو انتہائی خوبصورت ہے۔ اس کی چھت تک سنگ مرمر کی مورتیوں‌ سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اس کو بنانے میں‌ کتنے ہزاروں‌ لوگوں‌ نے کتنے ہی سال کام کیا ہوگا۔ گاندھی آشرم دیکھا، سابر متی دریا کے کنارے شام میں‌ وہاں دعا ہوتی ہے۔ اس میں‌ ہم بیٹھے۔ ہندو، کرسچن اور مسلم ہر شام دعا کرتے ہیں۔ گجرات میں‌ فسادات کے بعد لوکل کمیونٹی مل کر لوگوں‌ کو قریب لانے پر کام کر رہی تھی۔ وہاں‌ ہم نے گجراتی تھالی کھائی اور اسپریٹ سوسائٹی کو مائکرو اسکوپ چندے میں‌ دی جس سے وہ عوام کو گندا پانی پینے کے خطرات سے آگاہ کرسکیں۔ اسپریٹ کے پریزیڈنٹ حسن جوہر صاحب نے اپنی کتاب خطاب نو سائن کر کے ہمیں‌ تحفے میں‌ دی۔

ہمارے انڈین رشتہ دار بھی ہمارے جیسے ہی تھے۔ کچھ پڑھے لکھے، کچھ بزنس وغیرہ میں۔ انہوں‌ نے ہمیں اچھے کھانے کھلائے اور خاطر تواضع کی۔ میری کزن کا گھر علی گڑھ یونیورسٹی سے صرف ایک میل دور تھا جہاں‌ ہم لوگ تین دن ٹھہرے۔ وہاں‌ جانے سے پہلے ہی میرا پکا ارادہ تھا کہ مولانا آزاد لائبریری دیکھنے جائیں گے اور یونیورسٹی بھی۔ جانے سے پہلے علی گڑھ میڈیکل کالج کے انٹرنل میڈیسن کے ڈین کو بھی ای میل کیا تھاکہ ہم ان کا اینڈوکرائن ڈپارٹمنٹ دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں‌ نے اچھی طرح‌ سے جواب دیا، ہمیں‌ ناشتہ کرایا اور ہسپتال دکھایا۔ میں‌ نے ان کے اسٹوڈنٹس کو ذیابیطس کی نئی دوا پر لیکچر بھی دیا۔

برصغیر کی تاریخ جاننے کی وجہ سے مجھے علی گڑھ یونیورسٹی اور مولانا آزاد لائبریری کی اہمیت کا اندازہ تھا لیکن ان جگہوں‌ پر موجود خزانوں‌ کے بارے میں‌ معلوم نہیں‌ تھا۔ اسی لئے میں‌ نے اپنی کزن اور ان کے شوہر سے کہا کہ آج ہم مولانا آزاد لائبریری گھومنے جائیں‌ گے۔ یہ دونوں‌ علی گڑھ سٹی کالج کے مالک ہیں۔ کیا آپ وہاں‌ کسی کو جانتی ہیں؟ انہوں‌ نے پوچھا۔ نہیں لیکن ہم راستہ تلاش کر لیں ‌گے، میں‌ نے ان سے کہا اور پھر ہم لوگ لائبریری گھومنے گئے۔ دروازے پر شناختی کارڈ دکھایا، اندر گئے، ان لوگوں سے کہا کہ ہم انٹرنیٹ استعمال کریں ‌گے اور کتابیں‌ دیکھیں گے۔ امریکہ میں‌ کسی بھی لائبریری میں‌ جانا ایک سمپل کام ہوتا ہے۔

انڈیا میں‌ یہ دیکھا کہ ہر آسان سے کام کا ایک لمبا چوڑا پروسیجر ہے جس میں‌ صرف وقت کا ضیاع ہوتا ہے۔ پہلے لائبریرین سے ملو، انہوں‌ نے کہا کہ ایپلیکیشن لکھیں، پھر جیسے اسکول میں‌ لکھتے تھے ویسے ایپلیکیشن لکھی، اس پر ٹھپا لگا، پھر ایک دوسرے ننھے سے کمرے میں‌ ایک کلرک نے لمبا سا رجسٹر کھولا، اس میں وہ درخواست لگائی، پھر ایک اور فارم بھروایا۔ آپ کا نام، آپ کے والد کا نام، آپ کے گھر کا پتا، کتنے دنوں‌ کے لئے لائبریری استعمال کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کا فارم لے لے کر ایک اور بندے کو دیا جس نے ایک چوکور سی پرمیشن سلپ بنا دی۔

سب انک والے فاؤنٹین پین سے اچھی سی ہینڈ رائٹنگ میں‌ لکھ رہے تھے بالکل ویسے ہی جیسے انگریز سکھا گئے۔ بالکل فضول خانہ پری۔ ایک معمولی سا کام اتنے سارے لوگوں کے ہاتھوں‌ سے ہوکر مکمل ہوگا تبھی یہ دونوں‌ ممالک مسائل حل نہیں‌ کرسکیں‌ گے۔ جب تک مسئلہ حل ہونے پہنچے گا تو کوئی نہ کوئی ایکسپائر ہوگیا ہوگا اور دوبارہ سے پراسیس شروع کرنا پڑے گا۔

کیا دیکھنا ہے آپ کو؟ کیا مینواسکرپٹ دیکھنے ہیں؟ مینواسکرپٹس ہماری  دنیا میں‌ اس ورڈ ڈاکیومنٹ کو کہتے ہیں جو جرنل میں‌ چھاپنے کے لئیے جمع کرائی جائے۔ مجھے سمجھ نہیں‌ آیا کہ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں لیکن میں‌ نے کہا کہ ہاں ‌ہاں ہم مینواسکرپٹ دیکھیں  گے تاکہ معاملہ کچھ آگے بڑھے۔ پھر انہوں‌ نے ہمیں‌ ڈاکٹر شائستہ خان کے حوالے کر دیا۔ شائستہ خان ایک کمال کی خاتون ہیں جن کا تعلق بہار سے ہے۔ انہوں‌ نے ماسٹرز کیا پھر پی ایچ ڈی۔ کئی کتابیں‌ لکھیں۔ انہوں‌ نے ہمیں‌ سر سید روم دکھایا، لائبریری گھمائی۔ مینواسکرپٹ دیکھ کر میں‌ بتا نہیں‌ سکتی کہ مجھ پر کیا اثر ہوا۔ ایک خزانہ ہے چھپا ہوا اس پرانی سی لائبریری میں۔ سونے چاندی سے لکھے ہوئے واقعی وہ مینواسکرپٹس تھے۔ تصویریں‌ لینے کی اجازت نہیں‌ تھی اس لئے میں‌ پاگلوں‌ کی طرح‌ نوٹ بک میں‌ جلدی جلدی لکھ رہی تھی کہ کیا کیا دیکھا۔ خوبصورت مشہور شاعروں کا کلام، ہاتھ سے بنائی ہوئی سونے چاندی کی پینٹنگز، لیلاوتی، گیتا کے عربی اور فارسی ترجمے۔ ان کے پاس وہ چھوٹی سی شرٹ بھی تھی جس پر سارا قران لکھا ہوا تھا جسے مغل سپاہی پہن کر جنگ لڑنے جاتے تھے۔ شائستہ خان نے کہا کہ برصغیر کی تاریخ کو منقسم تاریخ نہیں‌ بلکہ ایک مشترکہ تاریخ کے طور پر پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں‌ نے مجھے اوم پرکاش کی کتاب ۔نہ فرشتہ نہ شیطان۔ پڑھنے کا مشورہ بھی دیا۔
پھر شائستہ خان نے اورنگزیب کی تلوار نکلوائی اور ہاتھ میں لینے بھی دی۔ کہنے لگیں، میں‌ یہ تلوار صرف ان لوگوں‌ کو دکھاتی ہوں جو “ان بائسڈ” یعنی بغیر تعصب کے ہوں۔

میں‌ نے دنیا میں‌ بہت بڑے میوزیم دیکھے ہیں جیسا کہ برٹش میوزیم، آیا صوفیہ، ٹوپکاپی پیلس وغیرہ۔ کس طرح‌ دنیا کے انسان اپنا تاریخی ورثہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ برصغیر کا خزانہ ہے جس کے لئے اس کے عوام کو مل کر شاندار میوزیم بنانے کی ضرورت ہے جہاں‌ ان کو آنے والی نسلوں‌ کے لئے محفوظ کیا جاسکے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments