کیا بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک سائیکو پیتھ ہیں؟


بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی زندگی پر اگر ایک نگاہ ڈالی جائے تو ان پر پرتشدد اور مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کے ان گنت الزامات و شواہد ملیں گے۔ پر تشدد اور مجرمانہ طرزِ عمل نفسیاتی مرض کی طرف بھی دلالت کرتا ہے۔ بہت سارے مجرم جو ظاہری طور پر نارمل دکھائی دیتے ہیں ان میں سے ہی کچھ لوگ ”اخلاقی طور پر بدعنوان“ یا ”اخلاقی پاگل پن“ کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک اخلاقیات کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ احساسِ ہمدردی سے محروم، لوگوں کے حقوق کا احترام اور ان کی پامالی پر کسی بھی قسم کے احساسِ ندامت سے عاری ہوتے ہیں۔ یہ لوگ متکبرانہ طور پر ایسے جرائم سے لذت محسوس کرتے ہیں۔

ایک سائیکوپیتھ جس ماحول کی پیداوار ہے اس میں اس کی پرورش بھی شامل ہے۔ وہ عام طور پر ”سرد مہری“ ظاہر کرتے ہیں اور دوسروں کے جذبات و احساسات سے بے پروا رہتے ہیں۔ احساسِ شرم، احساسِ جرم، پچھتاوے نام کی کوئی چیز سائیکوپیتھ کے نزدیک سے بھی ہو کر نہیں گزرتی۔ وہ ناقابل بھروسا اور غیر ذمہ دار ہوتے ہیں اور دوسروں کو ان چیزوں کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو در حقیقت ان کی اپنی غلطیاں ہوتی ہیں۔

عدم توجہ، بے اعتقادی اور اپنے مفادات کے لئے صراحت کے ساتھ جھوٹ بولنا اور اس جھوٹ سے دوسروں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا ان کی علامات میں سے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی عظمت کے قائل ہوتے ہیں اور خود کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے اپنے کیے ہر اقدام کو جائز تصور کرتے ہیں۔ جب ہم کسی کام کا آغاز کرتے ہیں تو کام کے شروع ہونے کے بعد ظاہر ہونے والے حالات اور اس سے متعلق نئی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے، سرگرمی میں ضروری ردوبدل کرنے کا اور اپنے ردِ عمل میں تبدیلی کرنے کا رجحان اور گنجائش بھی رکھتے ہیں۔ لیکن سائیکوپیتھ اس صلاحیت کے حامل نہیں ہوتے کیونکہ وہ ہر وقت رد عمل کے لئے تیار رہتے ہیں۔ سائکیوپیتھ عام طور پر پیتھالوجک انوسنٹریسیٹی کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ کسی سے پیار کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

مندرجہ بالا سائیکوپیتھیس کی خصوصیات کے حامل نریندر مودی 2014 ء سے ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ مودی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ، اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے رکن ہیں، جو ایک ہندو قوم پرست / انتہا پسند تنظیم ہے۔ مودی کے خاندان کا تعلق ہندوستان کی خدمتاگار ذاتوں میں سے تیلی برادری سے تھا جسے ہندوستانی حکومت اور عوام ایک پسماندہ طبقے میں گردانتے ہیں۔

بچپن میں مودی نے اپنے والد کو ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے میں مدد دی، اور بعد میں بس سٹاپ کے قریب اپنے بھائی کے ساتھ چائے کا ایک اسٹال چلایا۔ مودی نے اپنی اعلی ثانوی تعلیم اپنی جنم بھومی میں ہی مکمل کی جہاں ایک استاد نے انہیں تھیٹر میں دلچسپی رکھنے والا اوسط درجے کا طالب علم اور خطابت کا شوقین قرار دیا۔ طالبِ علمی کی ابتداء ہی سے مودی مباحثوں اور تقریروں کے مواقعوں سے بھرپور استفادہ کرتے۔ تھیٹر کی پروڈکشن میں وہ زندگی سے زیادہ بڑے کردار ادا کرنے کو ترجیح دیتے تھے، جیسے بادشاہ یا شہزادہ وغیرہ بننا، جس نے ان کے سیاسی شناخت کو متاثر کیا۔

ایک پسماندہ طبقے کے ہندو کی حیثیت سے، بڑے بڑے عزائم والے مودی کسی بھی قیمت پر اپنے خوابوں کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کے عزائم ذات پات پر مبنی ہندوستانی معاشرے میں ہی ایک خواب بن سکتے ہیں کیونکہ ثقافت، مراعات یافتہ طبقے کے تحت، نچلی ذات کو جائز مقاصد کے حصول کی اجازت نہیں دیتی۔ اس قسم کی صورتحال بہت سوں کو مایوس کرتی ہے کیونکہ ہندوستانی معاشرہ مراعات یافتہ طبقے اور پسماندہ طبقے کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے یکساں مواقع فراہم نہیں کرتا۔

بے رحم ارادے اور اختراعی سوچ کے حامل، اپنے خوابوں کے حصول اور بہتر زندگی کے خواہاں مودی جیسے ایک محروم شخص نے انتہا پسند گروپ آر ایس ایس میں شامل ہوکر اپنے عزائم کی تکمیل کا فیصلہ کیا۔ بنیادی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ختم کرنے کے نعرے لگاتے ہوئے ”ہندوتوا“ کا پرچار کیا۔ ان کی جارحانہ طبیعت اور بے رحم شخصیت کو آر ایس ایس کی شکل میں احساسِ گناہ، احساسِ جرم اور پچھتاوے کے بغیر اس طرح کے بھیانک اہداف کے حصول کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم میسر آ گیا۔ آر ایس ایس میں شامل ہونے کے بعد انہوں نے کبھی بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے خوابوں اورنظریات کی تکمیل کی تگ و دو مصروف ہو گئے۔ اقتدار میں شامل ہونے اور اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے یہ یقینی طور پر ایک سائیکوپیتھ اور ایک انتہا پسند گروپ کا انوکھا مرکب ہے۔

جب آٹھ سال کی عمر میں، مودی نے آر ایس ایس کو دریافت کیا اور انھوں نے مقامی تربیتی اجلاس میں شرکت شروع کی تو لکشمن راؤ نے انہیں آر ایس ایس میں ”جونیئر کیڈٹ“ کے طور پر شامل کر لیا اور وہ ان کے سیاسی سرپرست بن گئے۔ نریندر مودی کی نوعمری میں ہی شادی ہو گئی لیکن جلد ہی، انھوں نے ازدواجی ذمہ داریوں کو ترک کردیا اور گھر چھوڑ دیا اور دوبارہ شادی نہیں کی (اور کبھی یہ تک بھی جاننے کی کوشیش نہیں کی کہ ان کی بیوی کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے)۔ یہشادی خود کئی دہائیوں تک مودی کے عوامی اعلانات میں غیرضروری رہی۔ اپریل 2014 میں، ان کے اقتدار میں آنے والے قومی انتخابات سے کچھ دیر قبل، مودی نے عوامی طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی شادی ہوگئی ہے اور ان کی اہلیہ محترمہ چمن لال تھیں، لیکن ان کی علیحدگی ہو گئی تھی۔

1971 میں وہ آر ایس ایس کے لئے کل وقتی باقاعدہ کارکن بن گئے۔ 1975 میں ملک بھر میں عائد ایمرجنسی کے دوران، مودی کو روپوش ہونے پر مجبور کیا گیا تھا۔ آر ایس ایس نے انہیں 1985 میں بی جے پی میں شامل کروایا تھا اور وہ 2001 تک پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے میں متعدد عہدوں پر فائز رہے اور جنرل سکریٹری کے عہدے تک پہنچے۔ مودی کو 2001 میں گجرات کا وزیر اعلی مقرر کیا گیا اور 2002 میں گجرات فسادات میں ان کے مشکوک کردار کی وجہ سے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مودی نے 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کی قیادت کی تھی لیکن وہ اپنے ہندو قوم پرست عقائد اور 2002 کے گجرات فسادات کے دوران کردار کی بنا پر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر متنازع شخصیت تھے۔

فروری 2002 کو، گودھرا کے قریب کئی سو مسافروں پر مشتمل ایک ٹرین جل گئی، جس میں لگ بھگ 60 افراد ہلاک ہوگئے۔ مسمار شدہ بابری مسجد کے مقام پر ایک مذہبی تقریب کے بعد ایودھیا سے واپس آنے والے ہندو یاتریوں کی ایک بڑی تعداد ٹرین میں موجود تھی۔ اس واقعے کے بعد ایک عوامی بیان دیتے ہوئے، مودی نے اسے ایک دہشت گرد حملے کا منصوبہ قرار دیا اور مقامی مسلمانوں کو اس منصوبے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے اس بیان سے گجرات میں مسلم مخالف تشدد پھیل گیا۔

آزاد ذرائع نے ہلاکتوں کی تعداد 2000 سے زیادہ بتائی۔ لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ افراد کو پناہ گزین کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ متاثرین میں متعدد خواتین اور بچے شامل تھے کیونکہ تشدد میں بڑے پیمانے پر عصمت دری اور خواتین کے ساتھ زیادتی بھی شامل ہے۔ متعدد تجزیہ کاروں نے اس تشدد کو قتل عام جبکہ دوسروں نے اسے ریاستی دہشت گردی کی مثال قرار دیا ہے۔ اس واقعہ پر مارتھا نوسبوم نے کہا کہ ”اب ایک وسیع اتفاق رائے ہوچکا ہے کہ گجرات میں تشدد نسلی صفائی کی ایک شکل تھی، اور یہ کہ بہت سے طریقوں سے اس کو قبل از وقت قرار دیا گیا تھا، اور یہ ریاستی حکومت کی شراکت سے ہوا تھا۔“

ہنگاموں کے شکار مسلمان متاثرین کو مزید امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا جب ریاستی حکومت نے اعلان کیا کہ مسلم متاثرین کے لئے معاوضہ ہندوؤں کو پیش کی جانے والی رقم کا نصف ہوگا۔ 2002 ءکے واقعات میں مودی کی ذاتی شمولیت پر بحث جاری رہی۔ جب، اپریل 2009 ء میں ذکیہ جعفری کی ایک درخواست کے جواب میں (احسان جعفری کی بیوہ، جو مودی کے خلاف الیکشن لڑتی تھیں اور گلبرگ سوسائٹی کے قتل عام میں ماری گئی تھیں) ، عدالت نے ایس آئی ٹی سے کہا تھا کہ ”وہ ان ہلاکتوں میں مودی کے ملوث ہونے کے معاملے کی تحقیقات کرے۔“

مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیان بازی کا قابل ذکر استعمال کیا، اور بی جے پی نے ووٹروں میں مذہبی پولرائزیشن سے فائدہ اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی کی دوسری میعاد کے دوران حکومت کی بیان بازی ہندوتوا سے گجرات کی معاشی ترقی کی طرف منتقل ہوگئی۔ تاہم، مودی نے بہت سے ہندو قوم پرستوں کے ساتھ روابط برقرار رکھے۔ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی (جنہوں نے 2002 ء میں گجرات تشدد کے بعد مودی سے رواداری کی درخواست کی اور وزیر اعلی کے طور پر ان کے استعفی کے حمایت کی) نے خود کو مودی سے دور کر لیا۔

بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون کے زیراہتمام تشکیل دیے جانے والے کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی سفارشات کے مطابق، محکمہ خارجہ نے مودی کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ برطانیہ اور یورپی یونین نے فسادات میں ان کے کردار کی وجہ سے اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ چونکہ مودی ہندوستان میں اہمیت اختیار کرگئے، برطانیہ اور یورپی یونین نے بالترتیب اکتوبر 2012 ء اور مارچ 2013 ء میں پابندی ختم کردی اور وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد انہیں واشنگٹن بلایا گیا۔

مودی نے اپنی پوری زندگی متعدد بار جنونی شخصیت ہونے کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے معاشرتی اصولوں کا کبھی احترام نہیں کیا، معاشرتی پابندیوں کو توڑنے کے لئے ہر وقت تیار رہے یہاں تک کہ بین الاقوامی ذمہ داریوں سے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے بغیر کسی پچھتاوے اور قتل عام کے خوف کے روگردانی کی۔ وہ اپنی ابتدائی زندگی میں ہی سماجی دباؤ اور محرومی کے رد عمل میں ایک انتقامی شخص کے طور پر نمودار ہوئے۔ مقبوضہ کشمیرمیں آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنا ان کے ذاتی اور آر ایس ایس ایجنڈے کی ایک اور مثال ہے جو ہندوستان سے مسلمانوں اور اقلیتوں کو ختم کرنا ہے۔

انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ دے کر نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا میں اس مسئلے کو مزید بڑھایا۔ اس نفسیاتی مریض اور غیر معمولی طرز عمل کے رہنما کی وجہ سے پوری دنیا خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ سیاسی عہدہ سنبھالنے کے بعد انھوں نے اپنے کیے ہوئے کاموں کے لئے کبھی بھی پشیمانی اور ندامت کا کوئی احساس نہیں دکھایا۔

خطے میں مزید تناؤ سے بچنے کے لئے اقومِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی نگرانی میں تشکیل پانے والی ایک کمیٹی کے ذریعہ ان کے اقدامات پر نظر رکھنی چاہیے، کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لئے ان کے اقدامات کو فوری طور پر 5 اگست کی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی پوزیشن پر واپس لانا چاہیے۔ اقومِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیریوں تک رسائی دی جانی چاہیے۔ اقوام متحدہ میں کشمیریوں کی مشاورت سے کیا جانے والا حل ہی 70 سالوں سے ان پر ہونے والے جارحیت سے متاثرہ لوگوں کی تسکین کا باعث ہو سکتا ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا کی سلامتی کے ضامن دنیا کا امن کیسے ایک جنونی اور نفسیاتی بیمار شخص کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔ اگر مودی کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کی وجہ سے خطہ جوہری حادثے کی طرف چلا گیا تو اربوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ کیا اربوں انسانوں کی تقدیر ایک نفسیاتی جنونی شخص کے ہاتھ میں دی جا سکتی ہے؟ اقوامِ عالم کو اب یہ سوچنا ہو گا اور اس کے لئے کوئی لائحہ عمل بنانا ہو گا۔ میری اپنے ہم وطنوں سے بھی گزارش ہے کہ ہر شخص اپنے دائرہ اختیار کے مطابق یہ آواز اٹھائے تا کہ عالمی سلامتی کے ضامنوں کے کانوں تک ہماری یہ فکر پہنچے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).