نواز شریف اسی ہفتے رہا ہو سکتے ہیں


کیا نواز شریف کی دیو ہیکل سیاسی قوت (خصوصاً پنجاب ) کو اتنی آسانی کے ساتھ نظر انداز کیا جائے اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب وہ اپنی بیٹی سمیت پابند سلاسل ہے، جبکہ پورا خاندان ابتلاء اور آزمائشوں کے سامنے ہے۔ جس نے ہمدردی کی ایک طاقتور لہر کو شریف فیملی کی سمت موڑ دیا ہے۔

پیپلز پارٹی بظاہر قدرے خاموش ہے لیکن پرسکون ہرگز نہیں، آصف زرداری اور فریال تالپور کی گرفتاری اور سندھ حکومت کے ساتھ سوتیلا سلوک انہیں دیوار سے لگا کر ایک توانا جواز فراہم کر چکی ہے اسی لئے بلاول جب بھی میڈیا کے سامنے آئے تو اس کے لہجے کی آتش فشانی مستقبل کے منظرنامے میں پیپلزپارٹی کے کردار کو واضح کرتی ہے۔

اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی پراسرار ”گمشدگی“ گو کہ بہت حیرت انگیز ہے لیکن اس جماعت کی سیاسی مزاج سے واقف لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ نقارہُ جنگ بجے تو قیادت چاہے بھی تو خود کو تپتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے الگ نہیں کر سکتی کیونکہ اس طرح کرنا ان کے لئے حددرجہ غیر فطری عمل ہوگا اور اس پر اے این پی کی بقاء وفنا کا انحصار ہے۔

سو ہم ایک سہولت کے ساتھ تجزیہ کر سکتے ہیں کہ اس جماعت کی سخت جان کارکنوں کا رُخ کس سمت کو ہوگا۔

یہی صورتحال تقریباً محمود خان اچکزئی اور اس کی جماعت کی بھی ہے، البتہ جماعت اسلامی کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی لیکن یہ تلخ حقیقت بہر حال موجود ہے، کہ جماعت اسلامی سیاسی حوالی سے اب نہ اہم رہی اور نہ ہی قابل اعتماد۔

اب آتے ہیں مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے کی جانب

مولانا کو دو حوالوں سے پاکستانی سیاست میں ہمیشہ برتری حاصل رہی ایک یہ کہ وہ موجودہ سیاسی قیادتوں کی لاٹ میں سب سے زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان ہیں اور دوم یہ کہ ان کے کارکن ان کے حکم کو سیاسی معاملات سے الگ ایک گہری عقیدت کے ساتھ برتتے ہیں، یہ کارکن مخصوص مذہبی ماحول کا گہرا اثر لئے ہوتے ہیں اس لئے وہ ہر معاملے کو مذہبی نقطہ نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اور رد عمل بھی اسی ماحول کے زیر اثر رہ کر دکھاتے ہیں

اسی لئے یہ جو مولانا فضل الرحمٰن بار بار یہود اور قادیانیوں کا ذکر کرنے لگے ہیں تو یہ دراصل اپنے کارکنوں کو ایک مخصوص جذباتی ایندھن فراہم کرنے لگے ہیں تاکہ وہ ایک جہادی جذبے کے ساتھ نہ صرف احتجاج کا حصہ بنیں بلکہ مشکل صورتحال کو دماغ کی بجائے دل سے برتنے لگیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکومت شدید ترین ناکامیوں سے دوچار ہے جس کی وجہ سے معیشت بیٹھ گئی ہے جس کا اثر اس ملک کے ہر باشندے پر پڑا جس کی وجہ سے منطقی طور پر ایک طاقتور عوامی رد عمل ابھرا۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کی متضاد شخصیت اور روئیے نے جلتی پر تیل کا کام کیا جبکہ کشمیر کی موجودہ صورتحال نے اخلاقی طور پر موجودہ حکومت کو بھی بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر اپوزیشن جماعتوں کو منطقی طور پر ایک طاقتور عوامی تحریک کی طرف لے جا رہی ہے۔ اور یہ تحریک اگلے چند ہفتوں میں سڑکوں پر نمودار ہونے کو ہے۔ لیکن اس سے پہلے ہم دیکھ رہے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کی قیادت خصوصا مولانا فضل الرحمان کا رویہ ”خطرناک حد تک“ غیر لچکدار اور جارحانہ ہوتا جا رہا ہے حتی کہ انہوں نے کچھ غیر روایتی آور قدرے اجنبی سوالات بھی اٹھانا شروع کر دیے جبکہ سب سے طاقتور سیاسی حجم رکھنے والے نواز شریف بھی فطری طور پر مولانا کے عقب میں کھڑے نظر آ رہے ہیں کیونکہ نواز شریف نے جیل سے پارٹی کارکنوں کو دھرنے کی حمایت کا واضح پیغام دیا ہے۔ ساتھ ساتھ انہوں نے آب کے بار یہ معاملات جاوید ہاشمی جیسے جی دار اور جارح مزاج سیاستدان کو سونپ دینے ہیں۔ مولانا کی خطرناک بیان بازی اور جاوید ہاشمی کی نئی ذمہ داریوں کو سیاسی پنڈت ایک ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

آب اگر اکتوبر میں مولانا اسلام آباد کا رخ کریں گے تو گلی گلی میں موجود مذہبی مدارس سے ایک جم غفیر نے برآمد ہونا ہی ہے جس کی زیادہ تعداد خیبر پختون خواہ آور بلوچستان میں ہے لیکن اس دوران نواز شریف حسب توقع پنجاب کو بھی اشارہ دے گیا تو صورتحال خوفناک حد تک گھمبیر ہوتی جائے گی اور پھر دوسری اپوزیشن جماعتوں کے لئے خاموش رہنا بھی تقریبا ناممکن ہوتا جائے گا۔ اس لئے اگلے چند ہفتے انتہائی اہم ہیں کیونکہ سیاسی طور پرطاقتو ر لیکن ڈٹا ہوا نواز شریف اپوزیشن سیاست کو پہلے ہی غیر روایتی رخ پر لے کر گیا ہے جبکہ عوامی بے چینی بھی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور یہ دونوں عوامل مل کر سیاست کا حیرت انگیز لیکن خوفناک سمت متعین کر سکتی ہے۔
تازہ ترین یہ کہ نواز شریف اسی ہفتے نہ صرف رہا ہو سکتے ہیں بلکہ بہت سے معاملات متضاد سمت میں مڑنے کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).