امریکی فوجی کی موت یا طالبان کا فتحانہ انداز: امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات منسوخ ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟


ڈونلڈ ٹرمپ

ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی منسوخی کی وجہ جمعرات کو کابل میں ہونے والا خودکش حملہ قرار دیا، جس میں ایک امریکی فوجی سمیت بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے

دوحا میں امریکہ اور طالبان کے درمیان گذشتہ دس ماہ سے جاری مذاکرات اتوار کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تین ’بم شیل ٹویٹس‘ پر ختم ہوئے۔

کچھ سیکنڈز میں کیے گیے مسلسل تین ٹویٹس میں امریکی صدر نے طالبان پر الزام لگایا کہ وہ اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کی منسوخی کی وجہ جمعرات کو کابل میں ہونے والا خودکش حملہ قرار دیا، جس میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو قریب سے دیکھنے والے مبصرین صدر ٹرمپ کی جانب سے پیش کیے جانے والے جواز کے قائل نہیں کہ صرف ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر اُنھوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے پیچھے امریکی سیاست میں متحرک وہ لابی ہو سکتی ہے جو امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کے خلاف ہے اور سمجھتی ہے کہ اس معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں امن ممکن نہیں۔ ان کے نزدیک یہ معاہدہ طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف ہے۔

یہ بھی پڑھیے

طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے مسودے پر ’اتفاق‘

طالبان کے مسلسل حملوں سے امن مذاکرات رک جائیں گے؟

دوحا مذاکرات: امریکہ اور طالبان کے درمیان پیش رفت کےاشارے

تاہم بعض تجزیہ کار جمعرات کو صدر ٹرمپ کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان کو کابل میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجی کی ہلاکت کا ردعمل ہی سمجھتے ہیں۔

کابل حملے میں ہلاک ہونے والے 34 سالہ امریکی فوجی الیس اینجل باریٹو اورٹز کو دنیا بھر کے معتبر ذرائع ابلاغ نے کوریج دی تھی اور یہ کی خبر ان کی تصویر کے ساتھ چلائی گئی۔

دوحا مذاکرات

بعض مبصرین کے مطابق طالبان نے مذاکرات میں اپنے آپ کو ‘طاقتور’ دکھانے کے لیے بم حملوں میں اضافہ کی

کابل میں مقیم تجزیہ کار نجیب ننگیال سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں امریکیوں، طالبان اور افغان حکومت تینوں میں امن معاہدے کے حوالے سے ابہام پایا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے کسی بھی فریق کو اس معاہدے پر یقین نہیں۔

انھوں نے کہا ’امریکہ میں پینٹاگون، وائٹ ہاوس، سی آئی اے اور کانگریس کے بعض ارکان کو بھی تشویش تھی، افغان حکومت اور افغانستان کے عوام کو بھی خدشات تھے کہ پردے کے پیچھے کیا چل رہا ہے۔ طالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کو دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ اُن کی سیاسی قیادت اور جنگجؤں کے درمیان امن معاہدے پر اتفاق نہیں تھا۔‘

اگرچہ بعض مبصرین مذاکرات کے دوران ہونے والے حملوں کو طالبان کی جانب سے اپنے آپ کو ’طاقتور‘ دکھانے کا ایک حربہ مانتے ہیں، لیکن نجیب ننگیال کے بقول مذاکرات کے درمیان پرتشدد واقعات میں اضافے کی وجہ خود طالبان کے اندر گروپ بندی ہے۔

انھوں نے کہا ’قطر دفتر والے کچھ کہتے تھے، وہ کہتے تھے اُن کے جنگجو ایسا نہیں کر رہے۔ آخری دنوں میں یہ ثابت بھی ہوا کہ نہ صرف افغان شہریوں پر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوا بلکہ غیرملکیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ان میں سے کئی حملے طالبان اور امریکی وفد کے درمیان امن معاہدے کے مسودے پر اتفاق کے بعد بھی ہوئے تھے۔‘

تاہم امریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اتوار کو سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اُنھوں نے پچھلے دس دن میں 1000 طالبان مارے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کے خلاف حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے سابق سینیٹر اور سیاستدان افراسیاب خٹک افغانستان کی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر غصے کا اظہار کیا، لیکن ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کی کسی نے کوئی پروا نہیں کی۔

تاہم وہ امن مذاکرات کی منسوخی کی وجہ امریکہ کے اندر امن معاہدے کے خلاف ’دباؤ‘ سمجھتے ہیں جو اُن کے مطابق ایک عرصے سے موجود تھا۔

انھوں نے کہا ’امریکہ میں اُن کے ماہرین، بعض سویلیئن، فوج کے اندر اور حتی کانگریس کے بعض ارکان نے اس معاہدے پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک انتہائی خطرناک معاہدہ ہونے والا ہے، جو افغانستان میں امن کی بجائے مزید جنگ کا سبب بنے گا۔‘

اس معاہدے کے مخالفین میں صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے سینیٹر لنڈزے گریھم سرِفہرست ہیں۔ ان کے نزدیک امریکہ کو افغانستان سے اپنی افواج اتنی جلدی نہیں نکالنی چاہییں۔

مائیک پومپیو

امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اُنھوں نے پچھلے دس دن میں ایک ہزار طالبان مارے ہیں

آگے کیا ہوگا؟

تجزیہ کار نجیب ننگیال امریکی صدر کے بیان کو دباؤ ڈالنے کا طریقہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق امن مذاکرات ختم نہیں ہوئے بلکہ ملتوی ہوئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اب تینوں فریق کو کچھ فرصت ملے گی اور اتفاق رائے کے دوبارہ امن مذاکرات میں شامل ہونے کا موقع آئے گا۔

نجیب ننگیال کے مھابق ’کوئی بھی جنگ، جنگ پر ختم نہیں ہوتی۔ پھر بھی مذاکرات ہوں گے اور مذاکرات کے ذریعے ہی امن آئے گا۔‘

طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی منسوخی سے سب سے زیادہ فائدہ افغان حکومت کو بظاہر اس لیے ہو رہا ہے کہ اُن کی اور امریکہ کی ترجیحات میں واضح فرق ہے۔

امریکہ کی پہلی ترجیح امن معاہدہ، جبکہ افغان حکومت کی پہلی ترجیح آنے والے صدارتی انتخابات ہیں۔

نجیب ننگیال کے مطابق اب افغان حکومت کے پاس انتخابات منعقد کروانے کا وقت ہے تاکہ آنے والی حکومت کو پھر اس بنا پر تنقید کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ یہ تو آئینی حکومت نہیں ہے۔

واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی کی حکومت کی آئینی مدت 22 مئی کو ختم ہوئی تھی لیکن سپریم کورٹ نے اُنھیں ستمبر کے صدارتی انتخابات تک حکومت میں رہنے کی اجازت دی تھی۔

دوحا مذاکرات

بعض مبصرین کے مطابق طالبان نے مذاکرات میں اپنے آپ کو ‘طاقتور’ دکھانے کے لیے بم حملوں میں اضافہ کی

طالبان کا فتحانہ انداز

بعض ذرائع کے مطابق طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والے ممکنہ ’امن معاہدے‘ کو اپنی فتح قرار دے رہے تھے اور سننے میں آیا تھا کہ وہ معاہدے کے بعد افغانستان کے مختلف علاقوں جشن منانے کی تیاریاں بھی کر رہے تھے۔

اس فاتحانہ سوچ کے پیچھے صدر ٹرمپ کا افعانستان سے تمام امریکی افواج نکالنے کے حوالے سے بیان تھا۔ اس کے علاوہ طالبان یہ سمجھ رہے تھے کہ امریکہ ویسے ہی افغانستان سے نکل رہا ہے اور مذاکرات کر کے وہ اپنے آپ خطے سے باعزت طور پر نکالنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب، امریکہ کی جانب سے مذاکرات میں دکھائی گئی لچک نے بھی طالبان کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا۔

جب افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کی سربراہی میں امریکی وفد نے قطر میں طالبان کے وفد کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا تو امریکی ایلچی نے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں چار اہم نکات ہیں:

  • افغان سرزمین کی امریکہ اور اُن کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونا
  • امریکی اور بین الاقوامی افواج کا انخلا
  • افغان حکومت کے ساتھ بین الافغان مذاکرات
  • جنگ بندی

تاہم کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد ان چار میں سے صرف دو نکات (بین الافغان مذاکرات اور جنگ بندی) پر ہی بحث ہوتی رہی، جبکہ دوسرے دو نکات کو بین الافغان مذاکرات کے لیے چھوڑ دیا۔

طالبان آج بھی اپنے اُس مؤقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ افغان حکومت کے ساتھ حکومت کی حیثیت سے مذاکرات نہیں کریں گے اور اُن کے بقول سیزفائر پر بین الافغان مذاکرات میں ہی بحث ہوگی۔

تجزیہ کار نجیب ننگیال کے مطابق اگر طالبان واقعی میں امن مذاکرات کی کامیابی چاہتے، تو وہ اپنے اس فاتحانہ سوچ سے باہر نکلتے اور کچھ لچک کا مظاہرہ کرتے۔

انھوں نے کہا ’طالبان پہلے ہی دن سے لچک سکانے کی نیت سے نہیں آئے تھے۔ وہ فاتحانہ انداز میں گفتگو کرتے تھے، مذاکرات میں ایسا نہیں ہوتا۔ مذاکرات میں آپ کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر شریک ہوتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp