جانور راج: انقلاب دشمنوں کا قتل اور آزادی اظہار پر پابندی


نپولین نے سنجیدگی سے کھڑے ہو کے اپنے سامعین کا جائزہ کیا؛ پھر اس نے ایک کریہہ اور عنیف، عف عف بلند کی۔ اچانک ہی کتے آگے جھپٹے اور چار سؤروں کو کان سے پکڑ ا، درد اور دہشت سے چلاتے ان سؤروں کو گھسیٹتے ہوئے نپولین کے قدموں میں لا ڈھیر کیا۔ سؤروں کے کانوں سے خون بہہ رہا تھا اور کتوں کے منہ کو خون لگا چند ثانیوں کے لئے وہ ہلکا (پاگل) سے گئے۔ سب کو ششدر کرتے ہوئے ان میں سے تین، باکسر پہ جھپٹے۔ باکسر نے انہیں جھپٹتے ہوئے دیکھا اور اپنا جسیم کھر لہرایا، ایک کتے کو ہوا ہی میں جالیا اور زمین چٹائی۔

کتا، رحم کے لئے کاؤکاؤں کرنے لگا اور باقی دو، ٹانگوں میں دم دبا کر بھاگ گئے۔ باکسر نے نپولین کی طرف دیکھا کہ آیا وہ کتے کو مسل ڈالے یاجانے دے۔ نپولین کا چہرہ بدل گیا اور اس نے باکسر کو سختی سے حکم دیا کہ کتے کو جانے دے۔ جس پر باکسر نے کھر اٹھایا اور کتا چیاؤں چیاؤں کرتا، نیلو نیل وہاں سے بھاگا۔

شورش، فوری ہی دب گئی۔ چاروں سؤر لرزتے ہوئے، منتظر تھے ان کے چہرے کی ہر لکیر پہ احساس ندامت کنداں تھا۔ نپولین نے انہیں، اعتراف جرم کے لئے پکارا۔ یہ وہی چاروں سؤر تھے جنہوں نے نپولین کے اتوار کے مباحثوں پہ پابندی پر احتجاج کیا تھا۔ مزید کچھ بھی کہے سنے بغیر انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ خفیہ طور پہ سنوبال کے تڑی پار کیے جانے کے وقت سے ہی اس کے ساتھ ملے ہوئے تھے اور انہوں نے پون چکی کو گرانے میں اس کا ساتھ دیا تھا اور اس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت، جانوروں کا باڑہ، جناب اللہ دتہ کے حوالے کیا جانا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سنو بال نے ان کے سامنے تنہائی میں اعتراف کیا تھا کہ وہ کئی برسوں سے جانی صاحب کا گھس بیٹھیا تھا۔ جب وہ اعتراف جرم کر چکے تو کتوں نے اسی وقت ان کے گلے چیر ڈالے، اور نپولین نے خون خشک کر دینے والی آواز میں مطالبہ کیا کہ کیا کسی اور جانور نے کچھ قبولنا ہے؟

اب تینوں مرغیاں جو انڈوں کی بغاوت کی سرغنہ تھیں، سامنے آئیں اور اعتراف کیا کہ سنو بال ان کے خواب میں آکر انہیں نپولین کے حکم کے برخلاف چلنے پہ اکساتا تھا۔ ان کو بھی ذبح کردیا گیا۔ تب ایک بطخا آگے آیا اور اعتراف کیا کہ اس نے پچھلے سال کی مکئی میں سے چھہ بھٹے چرائے تھے اور رات کو کھائے تھے۔ پھر ایک بھیڑنے پانی پینے کے تالاب میں موتنے کا اعتراف کیا۔ جیسا کہ اس نے کہا کہ سنو بال کے اکسانے پہ۔ اور دو مزید بھیڑوں نے ایک بڈھے بھیڈو کو، جو کہ پکا نپولین کا چاہنے والا تھا، ایک الاؤ کے گرد دوڑا دوڑا کے مارنے کا اعتراف کیا جبکہ اسے سخت کھانسی اٹھ رہی تھی۔ وہ سب موقعے پہ ہی قربان کر دی گئیں۔ اور یوں اعترافات اور سزائے موت کی کہانی چلا کی، یہاں تک کہ نپولین کے قدموں میں لاشوں کا انبار لگ گیا اور ہوا خون کی بو سے بوجھل ہو گئی، جو کہ جانی صاحب کے دفعان ہو نے کے بعد سے غائب تھی۔

جب یہ ہو چکا، تو باقی ماندہ جانور، کتوں اور سؤروں کے علاوہ ایک جماعت کی شکل میں وہاں سے ٹل گئے۔ وہ خوفزدہ اور پریشان تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ کیا شے زیادہ بری ہے، ان جانوروں کی غداری جنہوں نے سنو بال سے ساز باز کی یا وہ سفاک سزا جو انہوں نے ابھی دیکھی۔ پرانے وقتوں میں اکثر ایسے ہی بھیانک کشت و خون کے مناظر ہوتے تھے، مگر یہ ان سب کو کہیں زیادہ برا لگا کیونکہ یہ ان ہی کے ہاتھوں ہو رہا تھا۔ جب سے جانی صاحب گیا تھا، کسی جانور نے کسی جانور کو نہ مارا تھا، ایک چوہا تک قتل نہ ہوا تھا۔

وہ سارے، ٹیکری تک پہنچے جہاں آدھی تعمیر شدہ پون چکی ایستادہ تھی اور ایک ساتھ ہی وہاں ڈھیر ہوئے، جیسے ایک دوسرے سے چمٹ کے گرمی حاصل کرنا چاہتے ہوں، کلوور، میوریل بکری، بنجامن گدھا، گائیں، بھیڑیں، اور مرغیوں اور بطخوں کا جھلر، سب کے سب، بس سوائے بی بلی کے جو کہ اس وقت اچانک غائب ہو گئی تھی جب نپولین نے سب جانوروں کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا تھا۔ کچھ دیر تک کوئی بھی، کچھ بھی نہ بولا۔ صرف باکسر اپنے قدموں پہ کھڑا رہا۔ وہ اضطراب میں اپنی لمبی دم ہلاتا، رہ رہ کے حیرت سے ہنہناتا، ٹہلتا رہا۔ آخر کار وہ بولا:

”میں اسے سمجھ نہیں پایا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہمارے فارم پہ بھی ایسی باتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ سب ہماری ہی کسی خطا کی وجہ سے ہوا ہے۔ حل اس کا جو کہ مجھے سمجھ آتا ہے یہ ہے کہ مزید محنت کی جائے۔ آ ج سے میں، صبح کو پورا ایک گھنٹہ پہلے جاگنا شروع کرتا ہوں۔“

اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پتھروں کی کان کی طرف بڑھا، وہاں پہنچ کر اس نے ایک کے بعد دوسرا، پتھروں کا بوجھا پون چکی تک ڈھویا، اس کے بعد کہیں وہ سونے کے لئے گیا۔

سارے جانور، کلوور کے گرد، بناء کچھ بھی بولے اکٹھے ہو گئے۔ جس ٹیکری پہ وہ لیٹے ہوئے تھے وہاں سے کھیتوں کا وسیع منظر، سامنے تھا۔ جانوروں کے مزرعے کا بیش تر حصہ نظر کے سامنے تھا۔ سڑک تک پھیلی ہوئی بڑی چراگاہ، چارے کے کھیت، ذخیرہ، پیاؤ، تازہ جوتے ہوئے کھیت جن میں گندم کے نوعمر سبز پودے گتھے ہوئے تھے، اور رہائشی عمارت کی سرخ چھتیں کہ جن کی چمنیوں سے دھواں بل کھاتا ہوا اٹھ رہا تھا۔ یہ بہار کی ایک روشن صبح تھی۔

گھاس اور باڑیں، سورج کی ہموار کرنوں کے نور سے روشن تھے۔ کبھی بھی یہ فارم جو کہ ایک گونہ حیرت ہی میں انہیں یاد آیا کہ ان کا اپنا ہے اس کا انچ انچ ان کی ملکیت ہے، جانوروں کو ایسا دلربا نہ لگا تھا۔ جب کلوور نے پہاڑی سے نیچے دیکھا تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اگر وہ بولتی تو یہ ہی کہتی کہ یہ وہ سحر تو نہیں جس کا ا نہیں انتظار تھا اور جس کے لئے سالوں پہلے انہوں نے جدو جہد شروع کی تھی کہ نسل انسانی کے استعمار سے نکلا جائے۔

دہشت اور کشت وخون کے یہ مناظر وہ نہ تھے جن کے خواب انہوں نے اس رات سے دیکھنے شروع کیے تھے جب میجر نے ان میں پہلے پہل انقلاب کی روح پھونکی تھی۔ اگر اس کے ذہن میں مستقبل کی کوئی تصویر تب تھی تو وہ جانوروں کے ایک ایسے معاشرے کی تھی جہاں سب کو بھوک اور کوڑوں سے نجات ملے گی، سب برابر ہوں گے، ہر کوئی اپنی بساط بھر ہی کام کرے گا، مضبوط کمزور کی حفاظت کرے گا، جیسا کہ میجر کی تقریر کی رات اس نے بطخ کے کھوئے ہوئے بچوں کو اپنی لاتوں کے درمیان پناہ دی تھی۔

بجائے اس کے، وہ نہیں جانتی تھی کہ کیوں وہ ایک ایسے دور میں داخل ہو گئے تھے جہاں کوئی اپنی بات نہیں کہہ سکتا تھا، جہاں خوفناک کتے، غراتے ہوئے ہر جگہ گشت کرتے تھے اور جہاں آ پ کو اپنے دوستوں کو حیران کن جرائم کے اعتراف کے بعد ٹکڑے ہوتے دیکھنا پڑتا تھا۔ اس کے ذہن میں انقلاب یا غداری کی کوئی سوچ نہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جو بھی ہے وہ جانی صاحب کے دنوں سے کہیں بہتر ہے اور کسی بھی شے سے پہلے یہ اہم تھا کہ انسانوں کی واپسی کی راہ روکی جائے۔

کچھ بھی ہو جائے وہ وفادار رہے گی، محنت کرے گی، اسے جو حکم دیے جائیں گے ان کی تعمیل کرے گی اور نپولین کو لیڈر تسلیم کرے گی۔ مگر پھر بھی یہ وہ سب نہ تھا جس کے لئے اس نے اور دیگر جانوروں نے امید کی تھی اورمشقت اٹھائی تھی۔ اس کے لئے تو انہوں نے پون چکی نہ بنائی تھی اور جانی صاحب کی بندوق کی گولیاں سہی تھیں۔ یہ اس کے خیالات تھے، گو اس کے پاس ان کے اظہار کے الفاظ کی کمی تھی۔

آخر کار یہ محسوس کرتے ہوئے کہ یہ کسی نہ کسی طرح ان الفاظ کا ازالہ ہے جو کہ وہ ادا نہیں کر سکتی، اس نے، ’وحوشِ انگلستان کا ترانہ‘ گانا شروع کر دیا۔ اس کے گرد بیٹھے دیگر جانوروں نے بھی تان اٹھائی اور انہوں نے اسے تین بار گایا، بڑے ہی سوز سے مگر دھیمے سروں میں دکھیا انداز میں ایسے جیسے پہلے کبھی نہ گایا تھا۔

وہ اسے تیسری بار گا کے ہی بیٹھے تھے کہ چیخم چاخ، دو کتوں کی معیت میں، ان کی طرف ایسے آیا جیسے کچھ بہت اہم کہنا چاہتا ہے۔ اس نے اعلان کیاکہ کامریڈ نپولین کے ایک خصوصی حکم کے ذریعے ’وحوش انگلستان‘ کا ترانہ، متروک کیا جاتا ہے۔ آج کے بعد اس کو گانا ممنوع ہے۔ جانور بھونچکے رہ گئے۔

’کیوں؟‘ میورئیل بکری چلائی۔

”اس کی مزید ضرور ت نہیں کامریڈز!“ چیخم چاخ نے سختی سے کہا۔ ”وحوش انگلستان ’انقلاب کا ترانہ تھا۔ مگر انقلاب تو اب مکمل طور پہ آ چکا ہے۔ آ ج سہ پہر جو غداروں کے گلے کاٹے گئے، وہ اس کی اختتامی کارروائی تھی۔ بیرونی اور اندرونی ہر دو طرح کے دشمنوں کی سر کوبی ہو چکی ہے۔‘ وحوشِ انگلستان ’میں ہم آنے والے دنوں میں ایک اچھے معاشرے کی تمنا کر رہے ہیں۔ مگر وہ معاشرہ تو اب قائم ہو چکا ہے۔ واضح طور پہ اب اس ترانے کی کوئی ضرورت باقی نہیں۔“

گو وہ خوفزدہ تھے، مگر کچھ جانور ضرور احتجاج کرتے، پر عین موقعے پہ، بھیڑوں نے اپنا معمول کا راگ، ”دو لاتیں گندی، چار لاتیں اچھی“ الاپنا شروع کر دیا، جو کہ کئی منٹوں تک جاری رہا اور یوں بحث ہی ختم ہوئی۔

چنانچہ، ’وحوش انگلستان‘ پھر کبھی نہ سنا گیا۔ اس کی جگہ ’عاجز گھٹنوی‘ صاحب، ملک الشعراء نے ایک نغمہ تخلیق کیا، جس کے بول کچھ یوں تھے،

جانور راج، جانور راج، اے میرے جانور راج
شالا، تجھے نہ پہنچے مجھ سے کوئی گزند، میرے سماج
اور یہ پرچم کشائی کے بعد ہر اتوار گایا جاتا تھا۔ مگر جانے کیوں نہ تو دھن اور نہ ہی الفاظ، جانوروں کو ’وحوش انگلستان‘ کے کبھی پاسنگ بھی لگے۔

اس سیریز کے دیگر حصےجانور راج: باکسر کا اختلاف اور چیخم چاخ کا کینہجانور راج: عظیم لیڈر نپولین

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).