نئے طوفان کی تیاریاں – مکمل کالم


اقتدار کے کھیل میں ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے نظر آتے پیادے صرف مہرے ہیں اور اکثر ان کا بادشاہ کوئی اور۔ پاکستان میں لکیر کے ادھر اور ادھر تمام مہروں کا بادشاہ صرف ایک ہے جو کسی ایک پیادے کے ساتھ کھڑا ہوجائے تو باقیوں کو شکست ہوجاتی ہے مگر حالات اب تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پیادے مل کر بادشاہ کو آنکھیں دکھانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ اس کھیل میں بادشاہ کے ساتھ موجود پیادہ اور اس کے ہرکارے بھی اپنی اپنی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں۔

جولائی کے ابتدائی دنوں کی بات ہے وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بیٹھنے والا وزیراعظم عمران خان کا ایک قریبی معاون ایک طاقتور افسر کےہمراہ خاموشی سے دبئی گیا جہاں اس نے ماضی میں دبئی حکومت سے جڑے دبئی کے شہری اوربڑے کاروباری عبداللہ ناصر لوتھا سے ملاقات کی۔

ناصر لوتھا کا نام پہلی بار پاکستان میں جعلی اکاونٹس کیس میں سامنے آیا تھا۔ یہ صاحب شکار کے لیےپاکستان آتے رہے ہیں اور پاکستان کی کاروباری و سیاسی شخصیات سے ان کی قریبی تعلق داری بھی رہی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ یہ سمٹ بینک کے سربراہ بھی بنائے گئے اور انہوں نے چوہدری شوگر ملز کے کچھ شئیرز بھی خریدے۔ ایف آئی اے کی جعلی اکاونٹس کیس کی تحقیقات کے نتیجے میں دبئی کی اس کاروباری شخصیت کا نام نہ صرف ملزم کی حیثیت سے ای سی ایل پر آ گیا بلکہ اب ان کو انٹرپول کے زریعے گرفتار کیے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوگیا۔ کاروباری شخص دنیا کے کسی بھی خطے کا ہو ایسے پنگوں میں نہیں پڑتا۔ ابتدا میں لوتھا نے ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سے فون پر رابطہ کیا اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ کیس نیب کے سپرد ہوا تو وزیراعظم کا معاون خصوصی لوتھا سے رابطے میں آگیا۔ دبئی میں ہونے والی ملاقات میں معاملات طے پائے اور اگست کے مہینے میں لوتھآ پاکستان آگیا۔

لوتھا نے یہاں حکومت کے دو کام کیے اول یہ کہ اس نے سابق صدر آصف علی زرداری اوراومنی گروپ کے مجید خاندان کے خلاف اعترافی بیان دیا دوئم یہ کہ اس نے نیب لاہور کی معاونت سے شریف خاندان کے خلاف ایسا بیان دیا جسے مریم نواز کےخلاف استعمال کیا گیا۔ یعنی ایک تیر سے دو شکار۔ لوتھا کچھ دن یہاں رہے دعوتیں کھائیں اور پھرخصوصی طیارے پروآپس روانہ ہوگئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان کا نام بدستورای سی ایل پر موجود ہے۔ کسی نے پوچھنے کی جرات بھی نہ کی کوئی کرتا بھی تو کیسے؟ لوتھا کے بیان نے ایک طوفان مچایا۔ مگر شاید اس سے بھی بڑا طوفان حکومت کے لیے منتظر ہے۔

اقتدار کے کھیل میں طوفان حکومتوں کے لیے بری خبر ہوتے ہیں مگر اپوزیشن ان طوفانوں کو اقتدار میں آنے کا ایک زریعہ بناتی ہے۔ اپوزیشن طوفانوں کی محرک ہوتی ہے مگر بظاہر اقتدار کے کھیل میں شامل اپوزیشن کے تمام کھلاڑی فی الحال کسی طوفان کے حامی نہیں۔ اپوزیشن طوفانوں کا محرک ہوتی ہے مگر آجکل اپوزیشن اندرونی تقسیم اورچیرمین سینٹ کے انتخابات میں ہونے والی شکست کے باعث باہمی عدم اعتماد کا شکار ہے۔ اس لیے وہ کسی طوفان کو لانے کی پوزیشن میں ہی نہیں۔ اس کی ایک وجہ ن لیگ میں قیادت کا فقدان اورپیپلزپارٹی کی پنجاب میں غیر مقبولیت بھی ہے۔ پھر سوال یہ ہےکہ اگرتمام مہرے مجبورہیں تو طوفان لائے گا کون؟

پاکستانی ریاست میں مذہب بھی ایک کلیدی اہمیت رکھتا ہے اور آج کل ملک میں جمعیت العلمائے اسلام ف کے سربرارمولانا فضل الرحمان ملک کی مذہبی سیاست کے سرخیل اور بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ اگرچہ جماعت اسلامی بھی مذہبی سیاست کرتی رہی ہے مگر مودودی کے بعد اس کی کلیدی فیصلہ سازی اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہی۔ یوں جماعت آوٹ اور جمعیت العلمائے اسلام (ف) ان ہوگئی۔

مولانا فضل الرحمان نے رواں سال جون کے آخری ہفتے میں آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور اپوزیشن جماعتوں کومستعفی ہو کرتحریک چلانے اور حکومت کو ہٹانے کی دلیل دی لیکن کوئی نہ مانا۔ یکم اگست کو چیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی شکست کے بعد جب سیاسی جماعتوں کو خیال آیا تو اس وقت تک ان کے حالات مزید خراب ہوچکے تھے۔ مولانا مگر ڈٹے رہے۔

میڈیا مولانا کو اہمیت نہیں دے رہا مگر وہ خاموشی سے ایک طوفان اسلام آباد لانے کی تیاریوں میں ہیں۔ ایک بات واضح ہوچکی ہے کہ مولانا کا فیصلہ اٹل ہے۔ شائد اسی لیے جیل میں قید نوازشریف نے کیپٹن رئٹائرڈ صفدر کے زریعے مولانا کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ اور ان کی جماعت اکتوبرمیں ہونے والے احتجاجی دھرنے کی بھرپورحمایت کرتے ہیں۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی فی الحال اس دھرنے کی حمایت سے گریز کیے ہوئے ہے۔ میرے خیال میں دھرنا کامیاب ہوتا دکھائی دیا تو پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی کامیابی کا حصہ وصول کرنے مولانا کے ساتھ آن ملیں گی۔

دینی مدارس کے طلبہ وطالبات کی اکثریت تو پہلے ہی جمعیت کے ساتھ ہے لیکن میرے ذاتی علم میں ہے کہ ریاست نےعالمی زمہ داریوں کے پیش نظر جہادی تنظیموں پر پابندیاں عائد کیں تو ماضی میں ان سے اختلاف رکھنے والےعناصرکی اکثریت بھی آج خاموشی سے مولانا کی حمایت کرنے لگی ہے۔

ذرا سوچیے اکتوبر میں مولانا فضل الرحمان اپنے جانثاروں کے ہمراہ اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں تو منظر کیا ہوگا؟ ایسی صورت میں دو ہی راستے ہیں اول یہ کہ انہیں گرفتار کرکے نظر بند کردیا جائے اور دوئم یہ کہ انہیں اسلام آباد آنے دیا جائے۔ دونوں صورتوں میں ملک میں گرتی معیشت کے پیش نظر طوفان آنے سے کوئی نہیں روک سکتا

(ہم سب کے خصوصی طور پر ارسال کی گئی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).