وزیر اعظم کن سے مشورہ کرتے ہیں؟


ایک تصویر میں ناصر بشیر اور وصی شاہ لائٹر کے ایک شعلے سے اپنا اپنا سگریٹ سلگا رہے ہیں۔ یہ دونوں عمر چور شاعر بچے سے دکھائی دے رہے ہیں۔ معصومیت ان کے چہروں سے ٹپک رہی ہے۔ انہیں دیکھ کر کالم نگار کو بہت کچھ یاد آگیا۔ 1965سے 1995 کے عرصے تک کالم نگار نے جی بھر کے سگریٹ پئے ہیں۔ اختر شیرانی نے کہا تھا۔

حد ہے پینے کی کہ خود پیر مغاں کہتا ہے

اس بری طرح جوانی کو نہ برباد کرو

اختر شیرانی کو کم پینے کی نصیحت ٹھیکے سے میسر آئی ہو گی کہ ان دنوں شراب گلی کوچوں میں صرف سرکاری ٹھیکوں پر بکتی تھی۔ ہمیں یہ تلقین سگریٹ فروش دکانداروں نے کی۔ اس معاشرت میں بڑے ،چھوٹوں پر نظر رکھنا اپنا معاشرتی فرض سمجھتے تھے۔ چند ہی گھنٹوں بعد کالم نگار بیس سگریٹوں والی دوسری ڈبیہ لینے دکان پر پہنچ جاتا تو ان کے چہرے پر خشمگیں آنکھوں کے دیکھنے کے ساتھ یہ بھی پڑھنے کو ملتا۔ اس بری طرح سے ”بچپن“کو نہ برباد کرو۔ کالم نگار ماچس کی ایک تیلی سے کئی سگریٹ سلگا لیا کرتا کہ وہ ”ٹوچن“ کا عادی تھا۔ ٹوچن انگریزی ترکیب Touch On  کی تخریب ہے۔ ٹوچن کا مطلب ہے، چلتی گاڑی سے رکی ہوئی گاڑی باندھ لینا یا ختم ہوتے سلگتے سگریٹ کے ساتھ نیا سگریٹ سلگانا۔ خیال امروہوی کی ایک غزل پٹھانے خان نے گائی ہے، مطلع ملاحظہ ہو۔

اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو

کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو

سگریٹ کا دھواں بھی بندے میں اللہ جانے کہاں تک رسائی پاتا ہے کہ روح تک میں رچ بس جاتا ہے۔ کالم نگار کو سگریٹ ترک کئے دس پندرہ برس تک سگریٹ کے دھوئیں کی مہک اچھی لگتی رہی۔ اگر یہ دھواں اس کے اپنے برانڈ کے سگریٹ کا ہوتا تو پھر اوربھی اچھی لگتی۔ اب لگ بھگ بیس برس بعد صورت حال قدرے تبدیل ہوئی ہے۔ اب سگریٹ کا دھواں اچھا نہیں لگتا۔ لیکن پوری بات یوں ہے کہ برا بھی نہیں لگتا۔ یادوں کے اسی کھلے دریچے میں جھانکتے ہوئے بھولے بسرے دوست ناصر بشیر سے فون پر رابطہ بھی اچھا لگا۔ بولے۔ تازہ واردات ہوئی ہے۔ اس غزل سے ابھی صرف دو شعر نازل ہوئے ہیں۔

صحرا و دشت شہر کی گلیوں میں کھو گئے

چادر خرد کی تان کے دیوانے سو گئے

ہے حکم ناخدا کہ انہیں ناخدا کہیں

ساحل کے آس پاس جو کشتی ڈبو گئے

ناصر بشیر بھی کیا سادہ لوح آدمی ہیں۔ دو شعروں کے نزول کو واردات سمجھے بیٹھے ہیں۔ پھر اس علم دشمن معاشرے میں اس پر شرمندہ بھی نہیں۔ ادھر سیاستدانوں کا پورا خزانہ لوٹنے کی واردات کے بعد بھی جی نہیں بھرتا۔ وہ اس پر شرمندہ ہونا تو کیا ، سرے سے اسے کوئی واردات ہی نہیں سمجھتے۔ ان کی عوام سے محبت ایک گوجرانوالیے جیسی ہے۔ اس نے کہا تھا، جانوروں اور پرندوں سے محبت کیا کرو، یہ بہت لذیذ ہوتے ہیں۔ ان دنوں سیاستدانوں اور ان کے ہمنواﺅں کی ایک واردات کا بہت شہرہ ہے۔ انہیں ایک صدارتی آرڈیننس کی شکل میں 208ارب روپوں کی معافی کا پروانہ ملا ہے۔ اس کے خلاف ہر طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔

معروف اور بے باک کالم نگار توفیق بٹ کی طنز خوب تھی۔ لکھتے ہیں۔ معافی اللہ کو بہت پسند ہے۔ دو سو ارب روپوں کی معافی اسی نیت اور جذبے سے دی گئی ہے کہ پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کیلئے ایسے اقدامات انتہائی ضروری ہیں۔ بپھری ہوئی مہنگائی اور ہمارے حکمرانوں کے ہر دم سوالی بنے ماحول میں یہ دریا دلی کسی کو بھی اچھی نہیں لگی۔ پھر یہ کام اتنی رازداری سے کیا گیا ہے کہ نہ ہی کابینہ میں ڈسکس ہوا ، نہ ہی پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوئی اور نہ ہی کسی اور فورم پر اسے کھنگالا گیا۔ بس ایک صدارتی آرڈیننس جاری کر کے خفیہ طریقے سے سیکورٹی پرنٹنگ پریس میں نوٹیفکیشن کیلئے بھجوا دیا گیا۔ حتیٰ کہ وزارت قانون اور خزانہ کے بہت سے افسران بھی اس تمام معاملہ سے اس وقت تک بے خبر رہے جب تک صدارتی آرڈیننس جاری نہیں ہو گیا۔

3 ستمبر کو کابینہ کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں اس معافی پر شدید تنقید کی گئی۔ اس پر وزیر اعظم عمران خان نے اس معافی کے صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ سے کروایا جائے گا۔ وزیر اعظم آفس سے جاری ایک بیان کے مطابق یہ فیصلہ ٹیکس ریکوری سے متعلق تنازعہ پر شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کا مقصد عدالت سے باہر مذاکرات کے ذریعے پچاس فیصد رقم وصول کرنا تھا۔ وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ عدالت میں فیصلہ حکومت کے خلاف ہونے کا زیادہ امکان ہے۔ اس میں سرکار کا نقصان زیادہ ہے۔ لیکن کابینہ کی مخالفت اتنی شدید تھی کہ عمران خان کو عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ 208 ارب روپوں کی معافی شاید پاکستان کی سب سے بڑی مالی معافی ہے۔ اس کے لئے تحریک انصاف، پارلیمنٹ اور کابینہ اس سلسلے میں کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا گیا۔ کالم نگار کا سوال ہے کہ ہمارے وزیر اعظم کن سے مشورہ کرتے ہیں اور ان مشیروں کی قانونی حیثیت کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).