چندریان 2: کیا وکرم لینڈر سے رابطہ قائم ہو سکے گا؟
انڈیا میں خلائی تحقیقاتی ادارے آئی ایس آر او کا کہنا ہے کہ اسے چاند کی سطح پر وکرم لینڈر سے منسلک چیزوں کی تصاویر ملی ہیں۔
جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب انڈیا کی چاند گاڑی وکرم لینڈر چاند کی سطح سے صرف 2.1 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی جب اس کا گراؤنڈ سٹیشن سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔
تاہم اتوار کو خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو دیے گئے بیان میں ادارے کے سربراہ کے سیون نے کہا ‘ہمیں چاند کی سطح پر لینڈر کی تصویر مل گئی ہے۔ چاند کے گرد گردش کرنے والے آربیٹر نے وکرم لینڈر کی تھرمل تصاویر لی ہیں۔’
آئی ایس آر او کے سربراہ نے یہ بھی کہا ہے کہ چندریان 2 میں نصب کیمروں نے لینڈر کے اندر ’پرگیان‘ روور کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ یہ وہ گاڑی ہے جو وکرم لینڈر سے نکل کر چاند کی سطح پر چل کر معلومات اکٹھی کر سکتی ہے۔
آئی ایس آر او کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے پی ٹی آئی کو بتایا ہے کہ زور دار لینڈنگ کے باوجود ’چاند گاڑی کے ٹکڑے نہیں ہوئے لیکن یہ ٹیڑھی حالت میں ہے۔‘
ادھورا خواب پورا ہو گا؟
ان سب باتوں کے بعد اب یہ امید کی جارہی ہے کہ انڈیا کا جو خواب جمعے کی رات کو ادھورا رہ گیا تھا شاید پورا ہو جائے۔
کے سیون نے کہا ہے کہ آئی ایس آر او مسلسل وکرم لینڈر کے ساتھ رابطہ قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگرچہ سائنسدانوں کی اس کی بہت کم توقع ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر دوبارہ رابطہ ہوا تو یہ انتہائی حیرت انگیز بات ہوگی۔
Indian Space Research Organisation (ISRO) Chief, K Sivan to ANI:We've found the location of #VikramLander on lunar surface&orbiter has clicked a thermal image of Lander. But there is no communication yet. We are trying to have contact. It will be communicated soon. #Chandrayaan2 pic.twitter.com/1MbIL0VQCo
— ANI (@ANI) September 8, 2019
سائنسدان گوہر رضا نے بی بی سی کو بتایا ‘یہ بہت مشکل ہے۔ رابطے میں آنے کے لیے لینڈر کو چاند کی سطح پر مناسب طریقے سے اترنے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف یہ کہ اس کے پاؤں سطح پر ہوں اور اس کا وہ حصہ کام کرے جس سے ہمارا رابطہ ختم ہوگیا۔
‘دوسری اہم بات یہ ہے کہ لینڈر کو ایسی حالت میں ہونا چاہیے کہ وہ 50 واٹ بجلی پیدا کر سکے اور اس کے شمسی پینل کو سورج کی روشنی مل رہی ہو۔’
وہ لینڈر کے ساتھ دوبارہ رابطے کے متعلق بہت پر امید نہیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ‘اگر دوبارہ رابطہ ہوا تو یہ حیرت انگیز ہوگا۔‘
لینڈر محفوظ ہے یا گر کر تباہ ہو گیا ہے؟
ایک سوال یہ بھی پیدا ہو رہا ہے کہ آیا لینڈر گر کر تباہ ہوا ہے یا محفوظ پوزیشن میں ہے۔
سائنسدان گوہر رضا کہتے ہیں ‘اتوار کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق لینڈر مکمل طور پر ٹوٹا نہیں۔ اگر ٹوٹ کر بکھر گیا ہوتا تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ لینڈر کی تصاویر لی گئی ہیں۔’
ہارڈ لینڈنگ میں لینڈر کو کتنا نقصان پہنچا اس کے متعلق کے سیون نے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا ہے۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس کی رفتار میں اتنی کمی واقع ہوگئی تھی کہ سطح سے ٹکرانے کے بعد لینڈر مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا۔
گوہر رضا کہتے ہیں ‘اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اس کی رفتار اس وقت تک کم ہوتی رہی جب تک کہ وہ چاند کی سطح پر اتر نہیں گیا۔’
آربیٹر سے لی جانے والی تصاویر کے تجزیے کے بعد ہی معلوم ہو سکے گا کہ لینڈر کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔
آخری منٹ میں کیا ہوا ہوگا؟
اس سوال کے جواب میں گوہر رضا کا کہنا ہے کہ ‘جب لینڈر سے ہمارا رابطہ 2.1 کلومیٹر پر ختم ہوگیا اس وقت سے چاند کی سطح پر پہنچنے تک کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
‘اب جبکہ ہمارے پاس لینڈر کی تصاویر آچکی ہیں تو یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آخری لمحوں میں کیا ہوا ہوگا۔’
ابھی تک سائنسدانوں کا یہ خیال ہے کہ آخری لمحات میں لینڈر کی رفتار پر قابو نہیں پایا جاسکا۔ لینڈر کو مقررہ رفتار سے اتارنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے تاکہ اسے کوئی نقصان نہ ہو اور اس کے پیر سطح پر ٹھیک سے پڑیں۔
رفتار پر کنٹرول
سافٹ لینڈنگ کے لیے لینڈر کی رفتار 21 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ سے سات کلو میٹر فی گھنٹہ کرنا تھی۔ کہا جارہا ہے کہ آئی ایس آر او سے سپیڈ کنٹرول نہیں ہوئی اور لینڈر آہستہ سے اتر نہیں سکا۔
لینڈر کے چاروں جانب چار راکٹ یا انجن لگے تھے جنھیں رفتار کم کرنے کے لیے فائر یعنی شروع کیا جانا تھا۔ جب یہ اوپر سے نیچے آرہا ہوتا ہے اس وقت ان راکٹ کو نیچے سے اوپر کے لیے فائر کیا جاتا ہے تاکہ رفتار پر کنٹرول حاصل کیا جاسکے۔
آخر میں لینڈر کے بیچ میں نصب پانچویں راکٹ کو فائر کیا جانا تھا تاکہ 400 میٹر کی بلندی کے بعد رفتار صفر تک آ جائے اور لینڈر آرام سے چاند کی سطح پر اتر سکے۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور رابطہ دو کلومیٹر قبل ہی منقطع ہو گیا۔
یہ سات سال تک کس طرح کام کرے گا؟
آئی ایس آر او کے سربراہ کے سیون نے سنیچر کو سرکاری ٹی وی ڈی ڈی نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چندریان 2 کا آربیٹر سات سال تک کام کر سکے گا۔ اگرچہ اس کا ہدف صرف ایک سال تک کام کرنے کا ہے۔
یہ کس طرح ہوگا، اس سوال کے جواب میں گوہر رضا نے کہا کہ آربیٹر، لینڈر اور روور کے کام کرنے کے لیے دو طرح کی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان چیزوں کو چلانے کے لیے برقی توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے آلات پر شمسی پینل یا سولر پینل لگائے گئے ہیں تاکہ سورج کی کرنوں سے انھیں توانائی حاصل ہوتی رہے۔
لینڈر اور روور کی سمت کو تبدیل کرنے کے لیے دوسری طرح کی توانائی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس ضرورت کو ایندھن کے بغیر پورا نہیں کیا جاسکتا۔
’ہمارے آربیٹر میں ابھی بھی اتنا ایندھن باقی ہے کہ وہ سات برسوں تک کام کر سکے گا۔‘
- انڈیا میں الیکشن کے پہلے مرحلے کا آغاز جہاں کروڑپتی امیدوار ووٹ کے لیے پیسے کے علاوہ سونا اور چاندی بھی استعمال کرتے رہے - 19/04/2024
- سڈنی شاپنگ مال حملہ: آسٹریلیا میں ’بہادری کا مظاہرہ‘ کرنے والے زخمی پاکستانی سکیورٹی گارڈ کو شہریت دینے پر غور - 19/04/2024
- مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجربات - 18/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).