افغان امن مذاکرات: ’طالبان سے بات چیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے‘


ٹرمپ

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طالبان سے ہونے والی بات چیت مکمل طور پر ختم (مردہ) ہو چکی ہے۔

پیر کے روز وائٹ ہاؤس میں میڈیا نمائندگان سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ‘جہاں تک میرا تعلق ہے، یہ (مذاکرات) ختم (ڈیڈ) ہو چکے ہیں۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘ہماری میٹنگ (کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات) طے شدہ تھی۔ میٹنگ بلانے کا آئیڈیا بھی میرا تھا اور اس کو منسوخ کرنے کا بھی۔ یہاں تک میں نے کسی اور سے اس پر تبادلہ خیال نہیں کیا تھا۔’

یہ بھی پڑھیے

افغانستان میں امن کب آئے گا؟

امریکہ، طالبان امن مذاکرات منسوخ کیوں ہوئے؟

مذاکرات نہ ہونے کا زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا: طالبان

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘میں نے کیمپ ڈیوڈ میٹنگ کو اس بنیاد پر منسوخ کر دیا کیونکہ انھوں (طالبان) نے کچھ ایسا کیا تھا جو انھیں بالکل نہیں کرنا چاہیے تھا۔’

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے امریکہ اور افغان طالبان افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ہونے والے معاہدے کے بظاہر بالکل قریب آ چکے تھے تاہم کابل میں ہوئے ایک حملے کے بعد یہ معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

کابل میں ہونے والے طالبان کے حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد آٹھ ستمبر کو امریکی صدر نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے طالبان سے مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ‘یہ کیسے لوگ ہیں جو اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے لوگوں کو قتل کرتے ہیں۔’

ایک اور ٹویٹ میں انھوں نے کہا تھا کہ ‘جھوٹے مفاد کے لیے طالبان نے کابل حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ وہ مزید کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟’

امریکی فوجی کی افغانستان میں ہلاکت کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں سے ہونے والی خفیہ ملاقات منسوخ کی تھی بلکہ افغان صدر سے گذشتہ اتوار کو طے شدہ ملاقات کی منسوخی کا اعلان بھی کیا تھا۔

طالبان

کابل حملے کے بعد اپنا ردعمل دیتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا اگر طالبان جنگ بندی نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں بامقصد معاہدے کی صلاحیت موجود نہیں۔

واضح رہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحا میں امریکہ اور طالبان کے نمائندوں کے مابین جاری امن مذاکرات کے نو دور ہو چکے ہیں۔

افغان حکومت نے مذاکرات کی منسوخی کے ردعمل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ دیرپا امن کے لیے پرعزم ہیں۔ انھوں نے امریکی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر قیام امن کے لیے کام کریں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منسوخ کر دینے کے اعلان کے بعد طالبان نے ردعمل میں کہا تھا کہ ‘مذاکرات کی منسوخی کا سب زیادہ نقصان امریکہ کو ہو گا۔’

بی بی سی کے نامہ نگار خدائے نور ناصر کے مطابق امریکی صدر کے بیان کے رد عمل میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ وہ امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ سنیچر تک امن معاہدے کے باضابطہ اعلان کے لیے تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ 23 ستمبر کو بین الافغان مذاکرات کا پہلا دن مقرر کیا تھا۔

طالبان کا کہنا تھا کہ ‘اب جب امریکی صدر نے اسلامی امارت کے ساتھ مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کیا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہو گا، اُن کے اعتبار کو نقصان ہو گا، اُن کا امن مخالف مؤقف دنیا کو نظر آئے گا اور اُن کی جان اور مال کا نقصان زیادہ ہو گا۔’

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے مجوزہ امن معاہدے کے مطابق طالبان کی طرف سے سکیورٹی کی ضمانت کے بدلے تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجی 20 ہفتوں میں افغانستان سے چلے جائیں گے۔

اس وقت تقریباً 14 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں۔

افغان

سنہ 2001 میں امریکی حملے کے بعد افغانستان میں اب تک بین الاقوامی اتحادی افواج کے تقریباً 3500 ارکان ہلاک ہوچکے ہیں، جن میں سے 2300 سے زائد امریکی فوجی ہیں۔

دوسری جانب اس جنگ میں ہلاک ہونے والے افغان شہریوں، عسکریت پسندوں اور سرکاری افواج کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اقوام متحدہ نے فروری 2019 کی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس جنگ میں اب تک 32 ہزار سے زیادہ افغان شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔

ادھر براؤن یونیورسٹی میں واٹسن انسٹیٹیوٹ کے مطابق اس جنگ میں 58 ہزار سکیورٹی اہلکار جبکہ 42 ہزار مخالف جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں امن معاہدے پر دستخط کے فوراً بعد بین الافغان مذاکرات شروع ہونا تھے، جن میں جنگ بندی، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام، آئینی ترمیم، حکومتی شراکت داری اور طالبان جنگجوؤں کے مستقبل سمیت کئی مسائل پر بات چیت شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp