حسین صرف پیاس کا نام نہیں!


”بیٹا مجلس میں جانے کے لئے تیار ہو جائیے“
ہم محرم میں منعقد ہونے والی یومیہ مجلس میں شرکت کے لئے جا رہے تھے اور چاہتے تھے کہ بچے بھی ساتھ چلیں۔ دونوں بچوں کے پاس نہ جانے کی ہزار تاویلیں تھیں۔

”مولوی حضرات بہت چیخ چیخ کے بولتے ہیں جس سے کچھ سمجھ نہیں آتا اور سر میں درد الگ سے ہوتا ہے“
”رسومات کا ایک ڈھیر ہے، علم اور ضریح تو ٹھیک ہے لیکن مہندی کی رسومات، حضرت قاسم کی لاش کی گٹھڑی؟ “

”زنجیر زنی کی کیا توجیہہ ہے؟ ہم خون بہانا چاہتے ہیں تو حسین کے نام کا خون عطیہ کیوں نہیں کر سکتے؟ کسی غریب کی جان بچ سکتی ہے“
”مجلس میں مولوی صاحب سارا زور رلانے پہ کیوں صرف کرتے ہیں؟ جذبات پہ اتنا زور کیوں؟ “

”نوحہ خوانی اتنی مصنوعی کیوں بنا دی گئی ہے؟ ندیم سرور اور فرحان وارث اتنی ایکٹنگ کے ساتھ نوحہ کیوں پڑھتے ہیں“
” ہر ذکر خوان کی فیس لاکھوں میں کیوں ہے؟ کیا یہ کمائی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے؟ “

اور آخری سوال!
”آخر آپ لوگ انہیں مجبور حسین اور بے کس حسین کہہ کے کیوں روتے ہیں؟ ایک طرف تو کہنا یہ ہے کہ حسن و حسین جنت کے سردار ہیں۔ ان کے لباس جبرائیل جنت سے لے کر آئے، دو جہاں ان کی ایک نظر کے محتاج تھے پھر وہ مجبور تو نہ ہوئے نا!

پیاس و بھوک تو ان کا بنیادی مسئلہ نہ ہوئی نا! تو سب مجلسیں ان کی بھوک پیاس کے گرد ہی کیوں گھومتی ہیں؟
ایسا کیوں ظاہر کیا جاتا ہے کہ بچے تڑپ رہے تھے؟ کیا وہ خاندان رسالت کے بچے نہیں تھے؟
حسین نے اصولوں پہ سودا بازی نہیں کی، حکومت وقت کے خلاف اپنی بات پہ ڈٹے رہے، اس پہ تفصیلی روشنی کیوں نہیں ڈالی جاتی؟

اور میں گہری سوچ میں ڈوب گئی!
یہ سب وہ سوالات ہیں جو ہم بھی اپنے بچپن میں سوچتے تھے مگر جواب نہیں ملتا تھا۔

لیکن یہ نئے ہزاریے کے بچے ہیں، سوال پوچھنے کی ہمت ہم سے زیادہ ہے اور جواب کا کھوج لگانا بھی بہتر طریقے سے جانتے ہیں۔ ان کے نزدیک رسوم میں رنگی روایات بوسیدہ ہیں اور دلیل لازم۔ یہ اکیسویں صدی کی دنیا ہے اور ہر عمل کی عقل ودانش کی ترازو پہ توجیہہ درکار ہے۔

نواسہ رسول سے محبت کے تقاضے اپنی جگہ، ان کی قربانی کو یاد کرنے کے مقصد کی اہمیت تسلیم لیکن لکھنوی عزاداری ان سب کا مقام اور اثر زائل کرنے کا سبب بنتی ہے۔ برصغیر کے صدیوں پرانے ہندوانہ کلچر کا اثر، مرثیہ نویسوں کی جذبات بھری شاعری اور تمام تشبیہات کا استعمال شاید اس زمانے میں تو اثر انگیز ہوتا ہو لیکن آج کے دور کے فرد کے لئے سوال طلب بن جاتا ہے

ہمارے ابا کتابیں پڑھنے کے رسیا تھے اور ہم نے یہ شوق انہی سے سیکھا۔ ایک دفعہ کسی نئی کتاب کی تلاش میں ابا کی الماری میں گھسے تو ایک پرانی سی کتاب ہاتھ آ گئی، ادیم نقوی کی لکھی ہوئی کتاب اہل البیت!

ہم نے کتاب پڑھی اور بار بار پڑھی۔ کچھ سمجھ آیا کچھ نہیں کہ ہم ابھی طفل مکتب تھے۔ شعور آنے پہ پھر سے پڑھی۔ انہوں نے اقبال کا شعر نقل کیا تھا
یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی

وہ قرآن کریم کی ایک آیت لکھتے ہوئے ہوئے کہتے ہیں،

” اور کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے حکم سے“، تو مومن کے لئے تو یہ ہے کہ ”ہر چہ از دوست میر سد نیکو است“ (جو کچھ بھی دوست کی طرف سے پہنچے وہی خوب ہے ) لہذا صاحب ایمان کامل کو غم و رنج کیوں ہو گا؟

جس بے کسی لاچاری اور پیاس کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ حالت ایک عام آدمی کی تو ہو سکتی ہے لیکن فہم تسلیم نہیں کرتی کہ خاندان رسالت وامامت کا کوئی بھی فرد حتٰی کہ کم عمر سکینہ اور شیرخوار علی اصغر پیاس کے ہاتھوں اتنے مغلوب ہوں کہ پانی کا تقاضا کریں۔ یہ خانوادہ رسول ہے، تمام حقیقتوں سے باخبر ہو کے جبر کا سامنا کرنے آیا ہے۔ معلوم ہے کہ سر کٹانا ہے، بے سروسامانی کا سامنا کرنا ہے، ناروا سلوک برداشت کرنا ہے لیکن یہ سب سوچا جا چکا ہے۔ ہر بات کو ذہنی طور پہ قبول کر کے کربلا میں ڈیرا ڈالا گیا ہے۔

امام حسین اور بلکہ سب آئمہ کا بنیادی پیغام تزکیہ نفس اور حق وسچ کی ترویج ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہادیان دین پر جذبات سرور و الم طاری نہیں ہوتے کہ وہ تکمیل ایمان کے جس درجے پہ ہوتے ہیں وہ ان رویوں کا خاصہ نہیں۔

آج کے علماء واقعات بیان کرتے ہوئے جذبات کا کثیر استعمال کر کے حسین کے مقصد اور فلسفے کی طرف سے توجہ ہٹا کے اسے ایک تہوار کی شکل دے دیتے ہیں۔ ایک ایسا تہوار جہاں خطیبوں اور صاحب فن کی بھی چاندی ہو جاتی ہے، مذہبی شہرت کا نشہ الگ اور لاکھوں کی کمائی اس کے علاوہ۔

حسین اس مقام تک کیسے پہنچے؟ اس سے پہلے تاریخ میں کیا گزرا؟ وہ کون سی ریشہ دوانیاں تھیں جس کا نتیجہ کربلا نکلا؟ حسین نے اس احتجاج کا فیصلہ کیوں کیا؟ یزید کا سیاسی بیک گراؤنڈ کیا تھا؟ وہ کون سے عوامل تھے کہ خلافت باشاہت میں بدل گئی؟ دنیائے اسلام نے حسین کا ساتھ کیوں نہیں دیا؟ قاضی وقت نے اس پہ کیا رد عمل دیا؟ عام لوگوں میں اس سب کے بعد کیا شعور پیدا ہوا؟ خواتین اور بچوں کو کربلا کی جنگ میں کیوں شامل کیا گیا؟ بی بی زینب نے شام کے بازاروں اور یزید کے دربار میں کیا خطبے دیے؟ نواسہ رسول کو صرف شیعوں کا کیوں بنا دیا گیا؟

یہ سب وہ سوال ہیں جن کا جواب محرم میں ڈھونڈنا چاہیے۔ ایسے اجتماع ہوں جہاں ہر طبقے اور ہر عمر کا فرد ایک کھلی بحث میں حصہ لے اور عالم انسانیت کو حسین کا مرتبہ اور مقام واضح ہو۔ ہماری نئی نسل تک محرم صرف ماتم، تعزیہ، علم اور گریہ کی محفل نہ رہے بلکہ ایک ایسا فورم بن جائے جہاں غیر مسلم بھی انسانیت کے اس عظیم سبق سے متعارف ہوں۔

کیونکہ واقعہ کربلا عالم انسانیت کا اثاثہ ہے۔ یہ ایک ہنگامہ درد ہے جو سچ اور ایقان کی صلیب اٹھا کے چلنے والوں کو استقامت کا سبق دیتا ہے۔ سچ کا یہ راستہ جھوٹ، جبر اور ظلم کی شاہراہ کے متوازی چلتا ہے لیکن ہوتے ہیں ہر دور میں ایسے کچھ دیوانے جو سنگلاخ سرزمین پہ ہی سر اٹھا کے چلا کرتے ہیں۔
حسین! آپ کو ہمارا سلام پہنچے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).