مارشل ژوکوو، ہٹلر کو زیر کرنے والی شخصیت


”فتح کا مارشل“ ”وہ انسان جس نے ہٹلر کو زیر کیا“ دوسری جنگ عظیم کا ایک نامور ترین سپہ سالار۔ قسمت اسے انتہائی بلندیوں پر لے گئی اور پھر قعر گمنامی میں دے مارا، مقدر نے اسے عوام کا پیار اور دشمنوں کی نفرت بخشی۔ اس کے حقیقی سپہ سالار ہونے کی صلاحیتوں کے اعتراف میں اس کی یادگار بنائی گئی اور اس پر یہ کہہ کر کیچڑ اچھالا گیا گویا اس نے جنگ عقل کی بنیاد پر نہیں بلکہ لمحہ لمحہ فیصلے کرکے لڑی تھی۔ اپنی زندگی میں وہ دوبار فوج کے اعلٰی ترین عہدے پر رہے اور دونوں بار انہیں سوویت عہد کے نازک ترین لمحوں سے گزرنا پڑا۔

دوسری جنگ عظیم سے چھ ماہ پیشتر وہ ایک مختصر عرصے کے لیے جی ایچ کیو کے سربراہ رہے تھے۔ پھر سوویت سربراہ ایوسیف ستالن کی موت کے بعد دو سال تک سوویت یونین کے وزیر برائے امور دفاع بھی رہے۔ اگر پیشہ وارنہ فہرست پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ شخص عسکری قیادت کے ان بیس افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے جنگ کے دوران سوویت فوج کی کارروائیوں کی سربراہی کی تھی۔ گیارگی ژوکو نے ہی کیوں مئی 1945 میں جرمنی کی غیر مشروط شکست کی دستاویز پر دسخط کیے تھے، اور بعد میں ماسکو کے ”لال چوک“ پر فوج کی پریڈ کی سلامی لی تھی۔

اگست 1914 میں روس نے پہلی عالمی جنگ میں شرکت کی تھی۔ جفت سازی کے سترہ سالہ طالبعلم ژوکوو نے فوج میں شامل ہونے کی کاوش نہیں کی تھی مگر 1915 کی گرمیوں میں اس کی عمر کے لوگوں کو فوری طور پر فوج کے لیے طلب کر لیا گیا تھا۔ گیارگی پہلے ریزرو دستے میں گیا اور وہاں سے اسے گھڑ سوار دستے میں بھیج دیا گیا تھا۔ جنگ کے آغاز کے تقریباً دو سال بعد ہی ژوکوو کو پہلی بار جنگ میں لڑنا پڑا تھا۔ جنگ جوانمردی سے لڑی تھی لیکن زیادہ دیر تک نہیں، صرف دوماہ کے لیے۔ ستمبر 1916 میں گیارگی گھڑ سوار حملے میں زخمی ہو گیا تھا لیکن اسے دشمن کے دانت کھٹے کرنے پر ”گیارگی کی صلیب“ تمغہ میں ملی تھی۔ پھر اکتوبر میں بارودی سرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔ سر کی شدید ضرب کے باعث اسے ہسپتال بھیج دیا گیا تھا۔

انقلاب فروری کے دروان ژوکوو کو اس سکواڈرن میں شامل کیا گیا تھا جو محاذ پر روانہ کی گئی تھی۔ انقلابی گھڑ سواروں نے اسے سالار کونسل کا رکن چن لیا تھا۔ اکتوبر کی بغاوت کے بعد اقتدار سنبھالنے والی کونسل نے یہ کونسل توڑ دی تھی اور اس میں شامل لوگوں کو گھر بھیج دیا تھا۔ گیارگی اپنی بستی لوٹ آئے تھے اور ٹائیفائڈ بخار میں مببتلا ہو گئے تھے جو اس وقت پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ صحت یاب ہونے کے بعد وہ بطور رضاکار سرخ فوج میں شامل ہوئے تھے۔ فرسٹ کیویلری ڈویژن میں ژوکوو نے عام سپاہی کی حیثیت سے خدمت سرانجام دینا شروع کی تھی لیکن جلد ہی بٹالین کمانڈر کے معاون کے عہدے کے لیے با اعتبار قرار پائے تھے۔

باصلاحیت نوجوان کمانڈر تیزی سے عہدے کی سیڑھیاں چڑھتے گئے تھے۔ 1939 میں گیارگی ژوکوو 57 سپیشل کور کو کمان کر رہے تھے جو منگولیا میں متعین تھی۔ تب سرخ فوج منگولیا کی فوج کی مدد کرنے پہنچی تھی تاکہ جاپانیوں کی پیش رفت روکی جا سکے۔ ٹوکیو میں ”جھیل بیکال تک عظیم سلطنت“ بنائے جانے کا سوچا گیا تھا اور ہر ممکن کوشش کی جارہی تھی کہ اس منصوبے کو پروان چڑھایا جائے۔ دریائے ہالہن گول پر قبضے کی غیر اعلان شدہ بھرپور جنگ ہوئی تھی۔

اس جنگ کا ایک اہم واقعہ پہاڑ بائن ساگان پر قبضے کے لیے لڑائی رہی تھی۔ تب جاپانی فوجیوں کو خفیہ طور پر دریائے ہالہن گول کو پار کرنے میں کامیابی حاصل ہو چکی تھی۔ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ جاپانی سرخ فوج کو مشرقی کنارے پر باقی فوج سے کاٹ ڈالیں گے۔ جاپانیوں کے مقام موجودگی کے بارے میں معلوم کر لیا گیا تھا، وہ پہاڑ بائن ساگان پر دفاعی پوزیشنیں سنبھالنا چاہتے تھے۔ جو ہوا اس کے بارے میں جان کر ژوکوو نے ٹینکوں کی کچھ بریگیڈز کو پیدل فوج کے بغیر جاپانیوں پر حملہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

سوویت ٹینکوں نے کئی ہلّے بولے تھے لیکن زیادہ نقصان اٹھا کر پیچھے لوٹنا پڑا تھا۔ بہرحال جاپانیوں کا حملہ رک گیا تھا۔ جاپانیوں کو بھی پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ نقصان اٹھا کر وہ اپنا بنیادی منصوبہ پورا کرنے کے قابل نہیں رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انہوں نے طویل لڑائی کے دوران پھر ایک بار بھی دریائے ہالہن گول کو عبور کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ یہاں ژوکوو کو پہلی بار کمانداری کے جوہر دکھانے کا موقع ملا تھا۔ جاپانیوں کے خلاف ان لڑائیوں کے بعد ہی عظیم سپہ سالار ہونے کی جانب ان کا سفر شروع ہوا تھا۔

22 جون 1941 کی شب، جی ایچ کیو اور دفاع کی عوامی کمیٹی والے سو نہیں سکے تھے۔ جاسوسوں کی اطلاعات اور عینی شاہدوں کے بیانات کے مطابق نہ روکی جانے والی جنگ نزدیک تر ہوتی جا رہی تھی۔ صبح چار بجے جی ایچ کیو کے سربراہ ژوکوو کے دفتر میں فون آیا تھا۔ مغربی حلقے کی فوج کی کمان نے اطلاع دی تھی کہ جرمن فضائیہ سوویت شہروں پر بمباری کر رہی ہے۔

کچھ روز کے بعد جی ایچ کیو اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ جرمنوں کا بڑا ہدف مرکزی محاذ ہوگا اور جرمنوں کا مقصد ہوگا کہ پہلو سے ہوتے ہوئے سوویت فوج کے عقب میں پہنچا جائے۔ اس گھیرے کو روکنے کے لیے ژوکوو سمجھتے تھے کہ کیف کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے فوج کو دنیپر ہہنچایا جائے۔ 29 جون کو انہیں اپنا یہ منصوبہ چیف آرمی کمانڈر کے سامنے پیش کرنا تھا۔ ستالن نے جب کیف دے دیے جانے بارے سنا تو وہ آگ بگولا ہو گئے تھے اور جی ایچ کیو کے سربراہ کی تجویز کو ”لغو“ قرار دے دیا تھا۔

ان دنوں ستالن کے سامنے بولنا بس موت کا پروانہ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس لمحے ژوکوو نے اپنا داستانی فقرہ کہا تھا، جس فقرے کو بعد میں کتابوں اور فلموں میں بہت بار جگہ ملی تھی۔ انہوں نے کہا تھا: ”اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جی ایچ کیو کا سربراہ محض لغو سوچ سکتا ہے، تو پھر اس کا یہاں کوئی کام نہیں ہے“۔ حیرت ناک طور پر یہ واقعہ ژوکوو کو کچھ زیادہ بھاری نہیں پڑا تھا، انہیں بس جی ایچ کیو کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

جنگ کے پہلے مہینوں میں ژوکوو کو دوسری جگہ لگا دیا جانا حیران کن تھا۔ ماسکو کے مضافات میں کارروائی، جو فسطائیوں پر سوویت فوج کی پہلی قابل ذکر فتح تھی، تمام کرنے والے ژوکوو کو لینن گراد بھجوا دیا گیا تھا۔ صورت حال مشکل ہو گئی تھی۔ نئے کمانڈر نے سرعت سے سخت اور فیصلہ کن اقدام لیے تھے۔ خطرناک مقامات کی جانب پورے توپخانے کا رخ پھیر دیا گیا تھا، جن میں بحری جہازوں پر نصب توپیں بھی شامل تھیں۔ بحری جہازوں پر سوار بحریہ کے جوانوں کو محاذ پر روانہ کر دیا گیا تھا۔

جرمنوں کا حملہ عین اس آخری لمحے روک دیا گیا تھا جب ہٹلر کی فوج دوربین سے شہر کے مرکز کو دیکھ رہی تھی۔ ان دنوں کی ڈرامائی کیفیات کا ذکر امریکی مضمون نگار سولسبیری نے اپنی کتاب ”900 دن“ میں لینن گراد کے دفاع کا جائزہ لیتے ہوئے یوں کیا ہے : ”جرمنوں کو روک دیا گیا تھا، اس طرح کیے جانے میں خون بہت بہا تھا، ستمبر کے ان ایام میں کتنے جرمن مرے تھے، ان کی گنتی کبھی کوئی نہیں کر پائے گا۔ جرمنوں کو ژوکوو کے فولادی عزم نے روکا تھا۔ وہ ستمبر کے ان دنوں میں ہیبت ناک تھے، انہیں اور کسی طرح نہیں پکارا جا سکتا تھا، دوسرا کوئی لفظ نہیں ہے“ سولسبری نے لکھا تھا۔

22 ستمبر کو ہٹلر نے، شہر کا دفاع کرنے والوں کی ہمت کا اندازہ لگائے بغیر، لینن گراد کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ عسکری زبان میں اسے ”محاذ کو مستحکم کیا جانا“ کہا جاتا ہے۔ اس لیے ژوکوو کو اکتوبر میں واپس بلا لیا گیا تھا۔

جنگ کا فیصلہ کن موڑ 1942 میں والگا کے کنارے ستالن گراد کے ”آپریشن اوران“ میں آیا تھا، جس کی تیاری انتہائی رازداری کے ساتھ ژوکوو اور جی ایچ کیو کے سربراہ واسیلیوسکی نے مل کر کی تھی۔ یہ کارروائی 19 نومبر کو شروع ہوئی تھی۔ جلد ہی ستالن گراد کے گرد جرمنوں کے دستوں کی جڑت ٹوٹ گئی تھی۔ کرنل جنرل پاؤلیوس کی سربراہی میں تین لاکھ جرمن فوج گھر چکی تھی۔ ستالن گراد کے لیے حملے کی کامیاب کمان کرنے کے صلے میں ژوکوو کو ایک بار پھر ”سوووروو فرسٹ آرڈر“ نامی تمغہ مرحمت کیا گیا تھا۔

1943 کے اوائل میں ژوکوو پھر سے لینن گراد پہنچے تھے تاکہ نئے حملے کی تیاری کریں۔ بارہ جنوری 1943 کو سوویت فوج نے ہٹلر کی فوج کی جانب سے شہر کا کیا گیا محاصرہ توڑ ڈالا تھا۔ اسی روز سوویت یونین کی قیادت نے گیارگی ژوکوو کو مارشل آف دی سوویت یونین کا خطاب دے دیا تھا۔

1945 کی بہار میں ژوکوو برلن کے مضافات میں پہنچ چکے تھے۔ توپوں کے حملے کی تیاری کیے جانے کے بعد 16 اپریل کی رات کو بیک وقت وہ 143 پروجیکٹر روشن کر دیے گئے تھے جن کا رخ دشمن کی پوزیشنوں کی جانب تھا۔ سائرن چنگھاڑنے لگے تھے، فضا میں سینکڑوں بمبار اور لڑاکا طیارے بلند ہوئے تھے۔ یہ انتہائی کامیاب اور قوی نفسیاتی حملہ تھا جس سے ہٹلر کی فوجوں کی دفاعی صلاحیت ضعیف ہو کر رہ گئی تھی۔ برلن کے لیے لڑائی چند دن مزید جاری رہی تھی۔ یکم مئی کو جرمنی کی اسمبلی پر فتح کا سرخ پرچم لہرا دیا گیا تھا۔ دو مئی کی صبح، برلن کے دفاع کے کماندار نے جو جنگی قیدی بن چکے تھے، جرمن فوج کو مزاحمت ترک کر دینے کا حکم دے دیا تھا۔

مگر سات مئی کو ژوکوو کو بتایا گیا تھا کہ جرمنوں نے، ریمسے میں امریکیوں کے ساتھ غیر مشروط شکست کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں۔ ستالن نے اس سلسلے میں اتحادیوں سے احتجاج کیا تھا کہ یہ سب کچھ سوویت نمائندے کی غیر موجودگی کے دوران کیا گیا تھا۔ لکھی ہوئی دستاویز کو ابتدائی پروٹوکول خیال کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ نتیجتا ”فیصلہ کیا گیا تھا کہ جرمنوں کے ساتھ ان کی شکست کی حتمی دستاویز پر دستخط 8 مئی 1945 کو برلن میں کیے جائیں گے۔

اس تقریب میں سوویت یونین کی نمائندگی کے لیے سوویت یونین کے مارشل گیارگی ژوکوو کو مقرر کیا گیا تھا۔ ٹھیک آدھی رات، اتحادیوں کے نمائندے، برلن کے مشرقی حصے میں واقع عسکری انجنیرنگ سکول کے ہل میں داخل ہوئے تھے۔ وہ کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے، دیوار پر سوویت یونین، امریکہ، انگلستان اور فرانس کے جھنڈے تھے۔ جرمنی کی جانب سے شکست کی دستاویز پر فیلڈ مارشل کییٹل نے دستخط کیے تھے۔ رات کے بارہ بج کر 43 منٹ پر تقریب اختتام کو پہنچ گئی تھی اور ژوکوو نے جرمنوں کو ہال سے نکل جانے کی تجویز دی تھی۔ یوں 9 مئی کو عالمی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ انجام کو پہنچی تھی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2