آؤ پولیس کو اخلاقیات سکھائیں


بطور معاشرہ ہم اخلاقی طور پر گراوٹ کا شکار ہیں، کسی ادارے یا فرد کو کوسنے کی بجائے ہمیں اپنی اخلاقی اقدار کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اپنانا ہو گا۔ ہر فرد کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔ کسی کے برے رویے پر ہم خوب شور و غل کرتے ہیں جبکہ وھی با تیں ہماری روز مرہ زندگی کا حصہ ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ کچھ خامیاں ہماری ذات کا حصہ ہوتی ہیں مگر ہم اپنی خامیوں کو سدھارنے کی بجائے دوسروں کو ٹھیک کرنے کے ٹھیکیدار بن بیٹھتے ہیں۔

معاشرے پر آپ کا سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں۔ ایک دفعہ کسی پٹھان نے کہیں سے سن لیا کہ ایک غیرمسلم کو مسلمان کرنے سے سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ اب پٹھان نے کسی غیرمسلم کو مسلمان کرنے کاپکا ارادہ کرلیا اور غیرمسلم ڈھونڈنے شہر میں نکل پڑا اچانک اس کی نظر ایک عیسائی پر پڑی جو شہر کے بازار میں جھاڑو لگا رہا تھا۔ پٹھان نے عیسائی کو گردن سے پکڑکر نیچے گرایا اور اس کے سینے پربیٹھ کر کہنے لگا اوہ لاکا کلمہ پڑھو۔

عیسائی بیچارہ ڈر کر سہم گیا اور عیسائی نے کہا خان میں عیسائی ہوں مجھے کلمہ نہیں آتا۔ پٹھان نے کہا ہم کو نہیں معلوم بس تم کلمہ پڑھو۔ ہم تمھیں مسلمان کرے گا تو ہمیں سو شہید کا ثواب ملے گا بس تم کلمہ پڑھو۔ جب عیسائی نے دیکھا کہ پٹھان بضد ہے اور جان سے مارنے پر تلا ہوا ہے تو عیسائی نے کہا اچھا پڑھتا ہوں اور پٹھان سے کہا چلو پڑھاؤ مجھے کلمہ۔ پٹھان نے کہا نہیں تم پڑھو۔ عیسائی نے پھر کہا خان مجھے نہیں آتا کلمہ تم پڑھاؤ۔ خان نے کہا لاکا مجھے بھی نہیں آتابس تم پڑھو۔

تو بات یہ ہے کہ فیس بک کے دانشور اور پولیس کو اخلاق کا درس دینے والے پہلے خود تو اخلاقیات سیکھیں۔ اپنے جائزناجائز کام کروانے کے لیے سیاست دانوں وڈیروں کے تلوے چاٹ کر پولیس کو پریشرائز کروانا تو چھوڑیں۔ کیا کبھی آپ نے دھوپ میں کھڑے پولیس والے کو پانی مہیإ کیا ہو۔ کبھی اس لیے احتجاج کیا ہو کہ پولیس کی ڈیوٹی ٹائمنگز مقرر کی جائیں۔ جب ناکے پر کھڑے پولیس ملازم کو امیرادے اپنی گاڑیوں کے ٹائروں سے کچل گئے تھے تو کتنے لوگوں نے اس پولیس ملازم کے لیے شمعیں روشن کی تھیں۔

کتنے لوگ ہیں جو پولیس کا ناکہ دیکھ کر گاڑی آہستہ کرلیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو تلاشی دیتے وقت پولیس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ملکی حالات کے پیش نظرتلاشی دینا ضروری اور فرض عین تصور کرتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو پولیس ملازم کے پوچھنے پر اپنی ٹھیک ٹھیک پہچان بتاتے ہیں۔ آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جو ٹریفک قوانین کی پابندی کرتے ہیں کتنے لوگ ہیں جو بغیر ڈرائیونگ لائسینس گاڑی چلانا جرم تصور کرتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو ممنوعہ جگہ پر پارکنگ نہیں کرتے۔

میں نے تو ایسے لوگ بھی دیکھے ہیں جو ایمبولینس فائربرگیڈ تک کو راستہ نہیں دیتے کتنے لوگ ہیں جو سکولوں ہسپتالوں کے پاس جاکر ہارن نہیں بجاتے یا گاڑی کی رفتار کم کرلیتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں جو رات کو اپنی گاڑیوں کی لائٹس مدھم رکھتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں انسانی اعضإ چوری کیسے ہو جاتے ہیں۔ ہسپتالوں سے نومولود بچے غائب کون کرتا ہے

دوسروں پر کیچڑ اچھالنا آسان ہے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ آپ کتنے بڑے متقی اور پرہیزگار ہیں ان چار انگلیوں کی طرف دیکھیے جو کسی پر تنقید کرتے وقت آپ سے مخاطب ہیں اگر کچھ تبدیل کرنا ہے تو خود کو تبدیل کرو عملی طور پر اس کا مظاہرہ کرو فیس بُک پر بک بک کرنے سے حق ادا نہیں ہو جاتا انقلاب قربانی مانگتا ہے جو یہ منافق معاشرہ دینے سے قاصر ہے۔ پولیس اصلاحات اورقوانین کو موجودہ حالات سے ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہیہ کام پولیس نے نہیں کرنا بلکہ منتخب نمائندوں نے کرنا ہے جن کو آپ نے ووٹ دے کر اسمبلی بھیجا ہے سو ان کا محاسبہ کیجیے اچھے برے لوگ ہر محکمہ میں پائے جاتے ہیں کسی کے انفرادی فعل کو سامنے رکھ کر پورے محکمہ کی تذلیل کہاں کا انصاف ہے۔ 24 گھنٹے ڈیوٹی کوئی ریسٹ نہیں کوئی ہسپتال نہیں کوئی بونس نہیں بیوی بچوں کے لیے وقت نہیں کہیں قربانیوں کا اعتراف نہیں اگر مل رہی ہے تو صرف نفرت ماں بہن کی گالیاں۔ یہ پولیس والے کا ہی جگرا ہے جو ہر وقت بے تکی تنقید برداشت کرنے کے باوجود اپنی ڈیوٹی نبھاتا ہے۔

چار دن پہلے جب بم دھماکے میں شہید حوالدار کی جیب سے اس پرواجب الادا قرض کی پرچی نکلی تو کتنے لوگوں نے پولیس کی تنخواہیں بڑھانے کی تحریک چلائی۔ کل ایک لیڈی کانسٹیبل کو پڑھے لکھے باشعور وکیل نے محض اس لیے تھپڑ مارے کہ اس نے وکیل صاحب کو گاڑی پارک کرنے سے منع کیا۔ تو مجھے بتائی کتنے با اخلاق لوگ اس قوم کی بیٹی لیڈی کانسٹیبل کے لیے بینرز اٹھائے باہر نکلے۔ تشدد کیسی طور بھی قابل برداشت عمل نہیں۔ چاہے پولیس کی طرف سے ہو یا عوام کی طرف سے۔

کراچی پولیس کے ایک باوردی انسپکٹر صاحب کی ویڈیو وائرل ہوئی یقیناً سب نے ہی دیکھی ہوگی وہ انسپکٹر صاحب اپنے جواں سال بیمار بیٹے کے علاج کی خاطرروروکر امداد کی بھیک مانگ رہے تھے مجھے بتائیں کتنے لوگوں نے اس بچے کے علاج کے لیے مہم جوئی کی۔ محکمہ پولیس ایک منظم جماعت ہے جہاں جزا اور سزا کا باقاعدہ ایک نظام ہے۔ پولیس ملازم چھوٹی یا بڑی غلطی کرتا ہے تو اسے محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا متعدد پولیس افسران چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی پاداش میں نوکری سے فارغ ہوچکے۔

محکمہ پولیس میں ملنے والی کوئی سزا فوراً پولیس افسر کے اعمال نامہ میں درج کردی جاتی ہے جبکہ کوئی چھوٹا موٹا انعام یا اعزاز ملنے کی صورت میں پولیس ملازم کو ناجانے دفاتر کے کتنے چکر لگانے پڑتے ہیں تب جاکر اعمال نامہ میں اس انعام کا اندراج ہوتا ہے۔ واحد محکمہ پولیس ہے جہاں ملازمان کو اتوار جمعہ عید کی بھی چھٹی نہیں ہوتی۔ ۔ صلاح الدین کے معاملے میں جو پولیس افسران ملوث ہیں بلکہ چند وہ افسران جو محض سینیئر تھے ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اس سرکل میں تعینات تھے ان کو بھی کافی مشکلات کا سامنا ہے۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال تمام ملازم جیلوں میں ہیں اور مقدمات کا انکوائریز کا سامنا کررہے ہیں۔ لیکن ملازمان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا کسی نے کبھی نوٹس لیا۔ کسی این جی او نے کسی تنظیم نے کسی ادارے نے پولیس کی ویلفیٕر کے لیے آواز اٹھائی تو بتائیں۔ بدقسمتی سے پولیس ملازمان اپنی کوئی یونین یا تنظیم نہیں بنا سکتے کیوں کہ یہ سراسر غلط ہوگا پولیس ایک ڈسپلن فورس ہے اور ڈسپلن فورسز میں پراپیگنڈہ کرنا ایک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ پولیس کا احتساب ہر موڑ پر جاری ساری ہے خدا کے لیے بطور انسان بطور پاکستانی اپنا اپنا احتساب کیجیے اور اس محکمہ پولیس کو آزادانہ کام کرنے دیجیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).