یاد، ماضی عذاب ہے یا رب


اب تو جیسے دنوں پر احسان کر کے جی رہے ہیں، وقت نے سیاہ لباس پہن لیا ہے، اسی فیصد سے زیادہ وقت موبائیل لے جاتا ہے پھر بھی جب کبھی احساس کی آوازیں دُور سے بلاتی ہیں تو ماضی کے بیتے حسین لمحے فوٹو البم بن جاتے ہیں۔ کئی جانے پہچانے چہرے من کے بن میں بسے پنچھی کو گھنے درختوں تلے سلا دیتے ہیں۔ وہ نظر سے نظر کا ملنا، وہ ہجر کا سحر سے ملنا، ان کہی بات سمجھنا، سجنا سنورنا، اور پہلا خط اور اس کے جواب کا انتظار، خوابوں کا جنم، ملاقاتین جیسے سانسوں کی سانسوں سے باتیں، دن نہیں تھی صاحب! صدیاں تھی، قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھیے۔ دشواریاں تھی، خواب تھے، درد تھے پر لاجواب تھے ْ کیاکہیں صاحب! وہ گھڑیان بس تکمیل کی گھڑیاں تھی، چناچہ ہم دن بہ دن ادھورے ہو رے تھے پر جیسے سب خواب پورے ہورہے تھے۔

پیار بچہ، جوان یا بوڑھا کچھ نہیں، پیار اک سوچ ہے جو ان پڑھ اور جاہل کو بھی عالم و کامل بنا دیتی ہے۔ کامل جب اپنی موج میں ہوتا ہے تو کمال کے کلام لکھتا ہے اور ان گنت خیالوں سے کھیل بنا دیتا ہے۔ وہ کوتا لکھتا نہیں پر اسے جنم دیتا ہے، پالتا ہے، بڑا کرتا ہے، کوتا کیا ہے؟ کچھ نہیں میرے دوست! بس حسن کی امانت ہے۔ اور جوانی اک نظر ہے جو سوچتی تو ویسی ہی کم، دیکھتی اس سے بھی کم پر ترستی بہت ہی زیادہ ہے۔

وہ دسمبر کی سردیاں تھی جب آرزوں نے دن گننا شروع کیے تھے، بادل چمکتے تھے اور چاند برستا تھا، ہم آوارگی کے بے تاج بادشاہ تھے، جہاں وقت ہم سے ملنے کے لیے وقت مناگتا تھا، جہاں سُر ساز بجاتے تھے، آنکھیں سوتی تھی اور خواب جاگتے تھے۔ چاھ اور چنتا دونوں سے من بے پرواھ تھا۔ لہروں کو اوڑھ کر سمندر کی گھرائی ناپنے نکلتے تھے۔ شرارت شطرنج کے پیادوں کی طرح اندر میں دوڑ مچاتی رہتی تھی۔ بس جان لی جیئے صاحب! حسن عشق کا عاشق تھا، پر ایک دن سب بدل کے رہ گیا۔ کسی نے خوب میری اس وقت کی کیفیت کی ترجمانی کی ہے،

کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دی،

ہم اگر عِشق نہ کرتے تو حکومت کرتے۔

ہم چُپ ہیں تو اس کو بھی غنیمت جانو،

ہم اگر صبر نہ کرتے تو قیامت کرتے۔

تو میرے صاحب! مندر کا ذکر تھا، جسے میں کرشن کا گھر کہتا تھا۔ آرتی کا سماں تھا، سورج دھرتی کو چاند کے سپرد کر کے اک نئی دنیا کے سفر پر رواں دواں تھا۔ ہر آنے والا آدمی مندر کی گھنٹیاں بجا کے بگھوان کو اپنے آنے کا سندیش دے رہا تھا۔ پوجاری آرتی کی تھالی گھماگھما کے بگھوان کا پتا دے رہا تھا۔ عجیب مزاک ہے دنیا کو مایا سے مکت کرکے اپنی تجوڑی میں مایا کو نہلا رہا تھا۔ میں بھی اک دن جانے انجانے اس گھر تک جا پہنچا، آرتی شروع ہوئی، ہر کوئی آنکھیں بند کر کے شاید اپنے اپنے بگھوان کو من میں بسا کے اپنی اپنی دھن میں مگن تھا۔

میں بھی یاتھ جوڑ کے قافلے کا حصا بنا پر میری نظر کرشن کو چھوڑ کر کسی اور نظر سے ملی۔ سب کچھ مایا ہے، انسان مٹی ہے، سب خاک میں مل جائے گا پر وہ گھڑی، کیا کریں حضور! وہ تصور سب تصوروں پر بھاری ہو گیا، جیسے سانس کا جھونکا سرد بدن کو ملا، جیسے تپتے سحرا میں بارش ہوئی، میرا اندر بس گلزار کا گیت بن گیا۔

کیسے بتاؤں میں تمہیں میرے لئے تم کون ہو؟

تم دھڑکنوں کا گیت ہو، جیون کا تم سنگیت ہو

تم زندگی تم بندگی، تم روشنی تم تازگی

تم ہر خوشی، تم پیار ہو تم پریت ہو، من میت ہو ٓ

مجھے خوشے ہوئی پہلے ہی دن کرشن نے مجھے پرساد میں میری رادھا دی۔ سمجھ میں آیا لوگ مندر میں بگھوان سے کیوں ملنے آتے ہیں، پر نہ تو میں نے تو کچھ نہیں مانگا تھا! شاید کرشن نے ایسا کیا ہو تاکہ میں مندر کا عادی ہو جاؤں۔ اور میں صحیح تھا ہر کوئی آنکھیں بند کرکے اپنے اپنے بگھوان کا دھیان کرتا ہے، اور پھر تو کیا کہیں جناب! پیار، پریت، چاھ اور چنتا سب میرے اندر کے مندر کے عادی بن گئے۔ مندر سے اٹھ کے تو نکلا پر جیسے اپنا اندر وہیں چھوڑ آیا۔

محفلیں بے چین کرنے لگی، خاموشی ڈیرا ڈال کے بیٹھ گئی اور تنہائی میں تو عجیب سا سکون ملنے لگا۔ وہ مستیاں، وہ چنچل پن، وہ شرارتیں جیسے سب کچھ کوئی چھین کے لے گیا ہو۔ وقت کو وقت پر وقت نہ دینے والا، اب وقت سے وقت کی بھیک مانگنے لگا۔ سنجیدگی نے تو گھر ہی بنالیا۔ دیوالی، ہولی اور دیگر تہواروں پر مندر کی گلی سے بھی نہ گزرنے والے ہم فقیر لوگ اب تو شام ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ اور تو اور سرکار! کبھی کبھی تو پوجاری سے بھی پہلے کرشن کے گھر، مندر پہنچ جاتے تھے۔ شہر کے لوگ عجب کھا رہے تھے پر ہم نے تو اپنی دنیا الگ ہی بنا ڈالی۔ غالب نے کیا خوب لکھا ہے ؛

عشق نے غالب نکما کردیا، ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

رات بھر چاند کے ہمراہ بیٹھ کر پہلا خط لکھا۔ اور اگلے دن انتظار کا میٹھا درد، بے درد بن کے ٹوٹ پڑا۔ عجیب دن تھا، لمحے ہم سے شرارت کر رہے تھے۔ کئی بار بے وجہ ہنسی آئی، پر جب وہ خط ملا میرے دلدار! حال مت پوچھ عشق کرنے کا، عمر جینے کی شوق مرنے کا۔ بہت ہی سادے الفاظ تھے۔ ’سادگی ہمیں بھت پسند ہے، سادگی خوبصورتی کا دوسرا نام ہے اور تم بہت سادے ہو‘ ۔ اور ہمیں سادگی سے کی گئی سادگی کی شرارت بہت ہی اچھی لگی۔

لمحوں سی کئی صدیاں چرائی، اور میرے مالک! کرشن کو تواپنا دوست ہی بنالیا، ہر روز ملنے کے لیے جاتے تھے۔ کبھی کبھی بگھت کے بول بھی سننے پڑتے تھے۔ اک دن میسج ملا، کہ آج ہم شہر سے باہر ہیں۔ اس شام مندر جانے کے لیے تو نکلے پر اندر کا پوجاری بہت ہی شانت تھا، گھر سے نکلے تو صحیح پر ناصر جیسے ساتھ میں گنگنا رہا ہو، اور ہم بھی چل پڑے ؛

کپڑے بدل کر بال بنا کر، چلے ہو کہاں اور کس کے لیے

رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے۔

یوں تو حضور! چند لمحوں کا فاصلہ تھا پر سفر بہت طویل لگا، جیسے دن مہینوں میں گزرا ہو۔ مندر، کرشن کا گھر ویران و سنسان لگ رہا تھا، اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا۔ بگھت کی کتھا کے بول اور بھجنوں کا رس بہت ہی پھیکا پڑ گیا تھا۔ کرشن جیسے میری اور دیکھ ریا ہو اور کھہ رہا ہو، ’میں سب میں ہوں، تو میرا بن کے دیکھ ساری دنیا کو تیری نہ بنا دوں تو کہنا‘ ، پر اندر انکاری تھا وہ بس وہ، وہ ہی سب کچھ ہے۔

رانجھن ڈھونڈھن میں چلی تے مینوں رانجھن ملیا نئی

جگ ملیا رانجھا نہ ملیا تے جگ رانجھے ورگا نئی

بس کیا سنائیں صاحب! وہ دن، وہ لمحے، وہ پل، اک نئی زندگی تھی، جس نے بندگی کرنا سکھایا۔ دریا میں رہتے تھے، کبھی پیاس کا احساس نہ تھا، اک جان بن کر رہتے تھے، جدائی کا احساس نہ تھا، بہاروں میں گھیرے رہتے تھے، پت جھڑ کا احساس نہ تھا۔ یے جھوٹ ہے کہ پیار اندھا ہوتا ہے، پیار تو آنکھیں دیتا ہے، پیار روشنی دیتا ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ڈر انسان کو ہمیشہ نا امید رکھتا ہے۔ ہر چیز بکھر کر رہ گئی، خواب ٹوٹ کر رہ گئے، ارمان روٹھ کر رہ گئے۔ جدائی کی دستک دیتے دیتے ہم سحرا کے مسافر بن گئے۔ ہم شاعر نہ تھے، نہ غالب تھے نہ ساحر تھے بس اُن حسین یادوں نے بہت ساری نعمتیں عطا کی۔ اختر انصاری نے خوب شعر لکہا ہے،

یاد، ماضی عذاب ہے ہا رب

چھین لے مجھ سے حافظ۔ میرا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).