معاشرے میں تشدد کی نفسیات


رابعہ الربا کا خط

آداب ڈاکٹر صاحب

رابعہ امید کرتی ہے آپ اور آپ کے قاری سب خیریت سے ہوں گے لاہور کی شامیں خنک اور مہکنے لگی ہیں۔ موسم بدلنے کا پیغام لائی ہیں۔ معلوم ہوتا ہے باہر کے موسم اندر کے موسموں کو بھی ہمت دیں گے۔ ڈاکٹر صاحب آج رابعہ درویش سے نہیں ایک نفسیاتی ڈاکٹر سے مخاطب ہے۔ اور بہت دکھ کے ساتھ مخاطب ہے ڈاکٹر صاحب آپ کو بھی چند برسوں سے اس پھیلتی ہوئی تشدد کی خبریں مل رہی ہوں گی۔ اس تشدد کی نفسیات کی تاریخ کیا ہے؟ اور یہ ظالم کو کیا تسکین دیتی ہے؟

ابھی تک ہمارے ہاں جتنے بھی کیسز سامنے آئے ہیں اس میں تشدد کرنے والے کو کوئی احساس جرم نہیں کہ اس کی وجہ سے ایک انسانی جان کا نقصان ہو گیا؟ ظالموں کی گرفتاری پہ بھی اس کی فیس ریڈنگ کریں یا باڈی لینگویج دیکھیں تو کوئی ندامت نہیں؟ یہ کیسی نفسیات ہے اور کیوں ہے؟ انسان جب انسان پہ ظلم کرتا ہے حتکہ اس کی جان لے لیتا ہے تو اسے کیا قرار ملتا ہے؟ پہلے دور میں سنا تھا کہ لال آندھیاں چلا کرتی تھیں۔ لال آسمان ہو جایا کرتا تھا۔ اب آندھیوں اور آسمان کو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ”تشدد کی نفسیات“ ہے کیا؟ آپ کے روشن خیالات شاید کسی اندھیر نگری میں جگنو بن جائیں۔ جیتے رہو ’ہم سب‘ کہ تم نے تین ہزار مریضوں میں ایک ڈاکٹر رکھا ہوا ہے۔ جس کو فیس بھی نہیں دینی پڑتی۔ ورنہ ٹیکس بھی لاگو ہو جاتا۔

جواب کی منتظر

دکھی رابعہ الرباء

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل کا جواب

۔ ۔

محترمہ و معظمہ رابعہ الربا صاحبہ!

مدت ہوئی جب ’ہم سب‘ پر ’درویشوں کے ڈیرے‘ کے خواب نامے چھپے تھے۔ اتنے عرصے کے بعد آپ کا خط آیا اور وہ بھی درویش کو نہیں ڈاکٹر سہیل کو جن سے آپ نے پاکستانی معاشرے میں بڑھتے اور پھیلتے تشدد کی نفسیات کے بارے میں سوال پوچھا ہے اور ساتھ ہی تین وڈیو بھی بھیجی ہیں جو آپ کے موقف کی تائید کرتی ہیں۔ میں نے اتنی بے دردانہ ’بے رحمانہ‘ ظالمانہ اور بہیمانہ تشدد کی وڈیوز زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھیں۔ انہیں دیکھ کر میں بھی بہت دکھی ہو گیا۔ اس لیے اگر آج میرے خیالات میں ربط نہ ہو تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا ذہن ان وڈیوز کے اثر سے ابھی تک پوری طرح باہر نہیں نکلا۔

پہلے وڈیو میں ایک شوہر نے اپنی بیوی کے ہاتھ زنجیروں سے باندھے ہوئے ہیں اور اسے بار بار سرِ عام پانی کے ایک ٹب میں ڈبکیاں دے رہا ہے۔

دوسرے وڈیو میں دو لڑکوں کو پورے محلے کے سامنے لاٹھیوں سے اتنا مارا گیا کہ وہ جاں بحق ہو گئے اور بعد میں ان کی چھوٹی بہن اور بوڑھی نانی کو روتے دکھایا گیا ہے

اور تیسرا وڈیو تو ظلم و تشدد کی تمام حدیں عبور کر گیا جس میں ایک نوجوان کے ہاتھ باندھ کر اس کے جسم پر چاقووں ’چھریوں اور کلہاڑیوں سے زخم لگائے جا رہے ہیں اور وہ درد اور اذیت سے چیخ چلا رہا ہے۔

رابعہ صاحبہ! وہ وڈیو دیکھ کر زندگی میں پہلی دفعہ مجھے انسان ہونے پر ندامت ہوئی اور بے بسی کا شدید احساس ہوا۔ اگر میرا بس چلتا تو میں

اس عورت کی زنجیریں کاٹ کر اسے آزاد کر دیتا

ان مرنے والے لڑکوں کو چھڑواتا اور ان کی چھوٹی بہن اور بوڑھی نانی کو دلاسا دیتا

اس نوجوان کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے جاتا اور ان تشدد کرنے والے ظالموں کو پولیس کے حوالے کرتا تا کہ انہیں کمرہِ عدالت میں کسی منصف جج کے سامنے پیش کیا جاتا۔

لیکن میں ایسا نہ کر سکا اور سوچتا رہا کہ کسی بھی انسان میں اتنا زیادہ غصہ اور نفرت ’تلخی اور تعصب کیسے جمع ہو سکتا ہے کہ وہ ظلم و تشدد کا آتش فشاں بن جائے اور پھر وہ ایسا پھٹے کہ خون کے دریا بہا دے۔

جہاں تک تشدد کی نفسیات کا تعلق ہے انسانوں نے پچھلے چند ہزار سالوں میں اپنی حیوانی جبلتوں پر قابو پانے اور ایک پرامن معاشرہ قائم کرنے کے تین راستے بنائے ہیں۔

پہلا راستہ مذہب کا ہے۔ ہر مذہب کی ایک روایت ایسی ہے جو امن کا پرچار کرتی ہے اور دوسرے انسانوں سے محبت کرنا سکھاتی ہے اس روایت پر چلنے والے سنت ’سادھو اور صوفی کہلاتے ہیں۔ امن پسند مذہبی لوگ خدا سے اور جہنم کی آگ سے ڈرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کا حساب ہوگا۔ ایسے لوگ امن سے رہتے ہیں اور دوسرے انسانوں سے ہمدردی سے پیش آتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ آسمانی کتابوں میں لکھا ہے کہ تعصب کرنا گناہ ہے اور ایک انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے۔

دوسرا راستہ قانون کا ہے۔ سیکولر انسان قانون کا احترام کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ قانون کی نگاہ میں سب شہری برابر ہیں اور جو انسان قانون کا احترام نہیں کریں گے اور دوسرے انسانوں سے تشدد کا مظاہرہ کریں گے وہ مجرم کہلائیں گے ’پولیس انہیں گرفتار کرکے عدالت کے سامنے پیش کرے گی اور اور اس جرم کی سزا کاٹنے جیل جائیں گے۔

تیسرا راستہ انسان دوستی کا ہے۔ ایسے لوگ اپنے روشن ضمیر کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور انسانی حقوق کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ دانشور کنفیوشس کے سنہری اصول پر عمل کرتے ہیں کہ دوسروں سے ویسا ہی سلوک کرو جیسا کہ تم چاہتے ہو وہ تمہارے ساتھ کریں۔

بدقسمتی سے اکیسویں صدی میں دنیا کے بعض معاشروں میں تشدد کی شدت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجوہات بے شمار ہیں جن پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ میری نگاہ میں کسی قوم اور معاشرے میں جب

مذہبی رہنما منافق بن جائیں

سیاسی لیڈر کرپٹ ہوجائیں

پولیس اور عدلیہ کا کردار مشکوک ہو جائے

اور لوگوں کا ضمیر مردہ ہو جائے

تو انسانوں کے دل پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ ایسے انسان جانور بن جاتے ہیں بلکہ جانوروں سے بھی بدتر۔

امریکی فلسفی ’ماہرِ نفسیات اور دانشور ایرک فرام اپنی مشہور کتاب

THE ANATOMY OF HUMAN DESTRUCTIVENESS

میں لکھتے ہیں کہ جانوروں کی جارحیت BENIGN AGGRESSION

ہے۔ شیر صرف اس وقت بکری پر حملہ کرتا ہے جب وہ بھوکا ہوتا ہے۔ بھوکا نہ ہو تو شیر اور بکری دوستانہ طور پر ایک ہی دریا سے پانی پی سکتے ہیں۔

انسانوں کی جارحیت جانوروں سے زیادہ خطرناک ہے وہ
MALIGNANT AGGRESSION
ہے کیونکہ وہ اپنی جارحیت اور اپنے تشدد کو کسی اعلیٰ آدرش، کسی مذہب، کسی مسلک اور کسی روایت سے جوڑ لیتا ہے اور اس تشدد کو مقدس بنا لیتا ہے۔ جب کوئی نظریہ تشدد کا جواز بن جاتا ہے اور انسان سمجھنے لگتا ہے کہ میرا سچ آخری اور حتمی سچ ہے ’دوسرے نظریے اور روایت کے لوگ جھوٹے ہیں اور ان کا قتل نیکی ہے تو وہ نظریہ انسانیت کے لیے خطرناک بن جاتا ہے چاہے وہ نظریہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی روحانی ہو یا سیکولر۔

ایسے انسانوں کو

نہ خدا کا خوف ہوتا ہے

نہ قانون کا ڈر

نہ ہی ضمیر کا خیال

ایسے لوگ کسی آدرش کے لیے نہ صرف انسانی خون بہاتے ہیں بلکہ اس خون بہانے کو نیکی سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ دوسرے رنگ ’نسل‘ زبان اور مذہب کے لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور ان سے غیر انسانی سلوک کر کے انہیں زندہ جلا دیتے ہیں ’سب کے سامنے جارحانہ طور پر قتل کر دیتے ہیں اور اس پر نادم ہونے کی بجائے فخر کرتے ہیں اور ان جیسی سوچ رکھنے والے انہیں اپنا ہیرو مانتے ہیں۔

؎ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیان جاتا رہا

رابعہ صاحبہ!

ہم اکیسویں صدی میں اس مقام پر آ گئے ہیں جہاں معاشرے میں ایسے مذہبی لیڈر ایسے سیاسی رہنما اور ان لیڈروں اور رہنماؤں کے ایسے پیروکار موجود ہیں جو جارحیت اور تشدد کوفروغ دیتے ہیں کیونکہ ان کے ضمیر مر چکے ہین اور ان کے دل پتھر کے ہو چکے ہیں۔

اب انفرادی نہیں اجتماعی احتساب کا وقت آ گیا ہے۔ جب کسی معاشرے میں قتل اور تشدد نیکی ’بہادری اور حب الوطی کا استعارہ بن جائے تو ہمیں جان جانا چاہیے کہ اس قوم کا اخلاقی دیوالیہ ہو گیا ہے اور وہ قوم اجتماعی خود کشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔

رابعہ صاحبہ!

آپ کے وڈیو دیکھ کر میں انسان دوست ہونے کے باوجود انسانیت سے بہت نادم ہوں کیونکہ

؎ مجھ کو خود اپنے آپ سے شرمندگی ہوئی

وہ اس لیے کہ تجھ پہ بھروسا بلا کا تھا

آپ کا دکھی دوست

خالد سہیل

۔ ۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail