برطانیہ میں بریگزٹ کی ہل چل: ’آرڈر آرڈر‘ کی صدا لگانے والے سپیکر جان برکاؤ خود ’آؤٹ آف آرڈر‘


برطانوی دارالعوام کے سپیکر جان برکاؤ ‘آرڈر آرڈر’ کہنے کے اپنے مخصوص انداز کی وجہ سے نہ صرف برطانیہ بلکہ ملک سے باہر بھی معروف ہیں۔ لیکن اب شاید پارلیمانی مباحثوں کے دوران ہم ان کی دلچسپ باتیں نہیں سن سکیں گے کیونکہ انھوں نے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔

برطانوی اخباروں میں جان برکاؤ کے استعفے کی کافی چرچا ہو رہی ہے۔ جان برکاؤ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے انتخابات یا برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی یعنی بریگزٹ کی تاریخ 31 اکتوبر کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔

گذشتہ کچھ برسوں میں بریگزٹ پر کئی مزاحیہ میمز بنائے گئے اور جان برکاؤ ان لطیفوں کا حصہ رہے۔ لیکن اب اس عہدے پر ایک دہائی گزرنے کے بعد انھوں نے کہا ہے کہ وہ اگلے انتخابات پر مستعفی ہو جائیں گے۔ بریگزٹ پر حالیہ کشیدگی کے باعث 31 اکتوبر کو نئے انتخابات ہونے کے امکانات ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

برطانوی دارالعوام کے سپیکر کی تنخواہ وزیرِ اعظم سے بھی زیادہ

بریگزٹ سے غیرملکیوں کے لیے کیا بدلے گا؟

’بریگزٹ میں تاخیر پر مجبور کیا گیا تو انتخابات ہوں گے‘

بریگزٹ: ٹریزا مے کا معاہدہ 149 ووٹوں سے مسترد

برطانوی اخبار ’آئی‘ نے اپنی ہیڈلائن میں ’آؤٹ آف آرڈر‘ لکھتے ہوئے کہا کہ بریگزٹ کی نئی تاریخ پر برطانیہ کے سپیکر بھی چلے جائیں گے۔ دیگر اخباروں میں بھی جان برکاؤ اور ان کی جماعت میں اختلافات کا ذکر ہوا ہے۔

شاید اب اس سے حکومتی اراکین اور جان برکاؤ کے درمیان چوہے بلی کا کھیل ختم ہو جائے۔

بطور سپیکر جان برکاؤ کا کردار اہم رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ جاننا ضروری ہو گا کہ برطانوی پارلیمان میں سپیکر کا کیا کردار ہونا چاہیے، خصوصاً بریگزٹ جیسے حساس مسئلے کے دوران۔۔۔

جان برکاؤ

جان برکاؤ اتنے مقبول کیسے ہوگئے؟

برطانوی پارلیمان میں بریگزٹ کے مباحثوں کے دوران جان برکاؤ نے سنہ 1604 تک کی پرانی روایات دہرائی ہیں۔

بریگزٹ کے حامی اراکین جان برکاؤ پر جانبداری کا الزام لگاتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کو نہ چھوڑے یا پھر ‘نرمی سے’ بریگزٹ کیا جائے تاکہ یورپی یونین کے ساتھ تب بھی گہرے تعلقات رہیں۔

روایت کے برعکس ایسی بازگشت بھی سننے میں آئی کہ انھیں اپنی ہی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے اگلے انتخابات میں سپیکر اور رکنِ اسمبلی کے عہدے سے الگ کر دینا تھا۔

جان برکاؤ

اتنا ‘آرڈر آرڈر’ کیوں بھائی؟

آسان لفظوں میں یہ کہ برطانوی دارالعوام میں سپیکر ہر چیز کا انچارج ہوتا ہے۔

اگر پارلیمان ایک ٹی وی شو ہے تو سپیکر اس کا میزبان۔ ایک لمحے کے لیے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ جان برکاؤ پر کتنی ذمہ داریاں ہیں۔

اس لیے جب حالات بےقابو ہونے لگتے تو جان اپنے منفرد انداز میں پارلیمان کو سنبھالنے کے لیے ‘آرڈر آرڈر’ کی آواز بلند کر دیتے۔ جبکہ بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انھیں ایسا کرنا کچھ زیادہ ہی پسند ہے۔

روایات کے مطابق سپیکر کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہونا چاہیے۔ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ محض پارلیمان کے اصول اور روایات کی نمائندگی کریں گے۔

اس لیے جب کسی سپیکر کا انتخاب کیا جاتا ہے تو یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی جماعت کی حمایت کرنا چھوڑ دیں گے۔

سر ٹومس ہنگرفورڈ پہلے سپیکر تھے

سر ٹومس ہنگرفورڈ برطانوی پالیمان کے پہلے سپیکر تھے

خطرناک کھیل

پارلیمان کا سپیکر ہونا کوئی آسان کام نہیں۔

پہلی مرتبہ برطانوی پارلیمان میں سپیکر کا عہدہ سنہ 1377 میں قائم کیا گیا۔ سر ٹومس ہنگرفورڈ پہلے سپیکر تھے۔

اس دور میں یہ ایک خطرناک عہدہ تصور کیا جاتا تھا۔ سنہ 1535 سے قبل کم از کم سات سپیکرز کے سر قلم کر دیے گئے تھے۔

لیکن پارلیمان کے سپیکر کا یہ جدید روپ 18ویں اور 19ویں صدی میں ابھر کر سامنے آیا جب وہ اپنی جماعت سے الگ ہو کر آزاد حیثیت رکھنے لگے۔

جان برکاؤ بھی اپنے بیانات میں سپیکر کے کردار کو ایسا ہی پیش کرتے ہیں۔ اور اپنے برتاؤ سے یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ سپیکر کسی جماعت کے لیے اصول نہیں توڑتا اور نہ ہی کسی جماعت کی تذلیل کرتا ہے۔

جان برکاؤ بمقابلہ ٹریزا مے

رواں سال کے آغاز میں کنزرویٹو پارٹی کے اندر اس وقت کشیدگی بڑھتی ہوئی نظر آئی جب سابق وزیر اعظم ٹریزا مے چاہتی تھیں کہ وہ بریگزٹ منصوبے پر اپنی تیسری کوشش کے دوران پارلیمان کی حمایت حاصل کر سکیں۔

لیکن سپیکر جان برکاؤ نے یہ فیصلہ کیا کہ ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوگا اگر منصوبے میں تبدیلی کی جائے یا پارلیمان کا نیا سیشن شروع ہو۔

جان برکاؤ اپنے فرائض سرانجام دیتے ہوئے مشکل زبان اور قدیم روایات کا حوالہ دے کر فیصلے کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ٹریزا مے کے زوال میں جان برکاؤ کے سخت فیصلے شامل رہے۔

عوام میں مقبولیت

سوشل میڈیا کے اس دور میں جان برکاؤ کا لہجہ مقبول ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔

وہ جو من میں آئے کہہ دیتے ہیں۔ چیختے چلاتے ہیں۔ منفرد انداز میں ‘آرڈر آرڈر’ کہنا بھی جانتے ہیں۔

تو اس میں کوئی سرپرائز نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کی وجہ سے عوام میں مقبول ہوگئے۔

انھیں یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی سراہا جاتا ہے۔ جیسے جرمن اخبار ‘ڈی ولٹ’ نے دعویٰ کیا تھا کہ جرمنی میں ان کی مقبولیت پارٹی کے دوسرے کسی لیڈر سے زیادہ ہے۔

اخبار ‘سنڈے ٹائمز’ نے انھیں ‘یورپ کا نیا پوسٹر بوائے’ قرار دیا تھا۔

امریکی نیوز چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اپنے سپیکر کے کردار کو کچھ یوں بیان کیا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ برطانوی فٹبال کلب آرسنل کے میچ دیکھنے اکثر جاتے ہیں۔ ‘گراؤنڈ میں 60 ہزار شائقین ہوتے ہیں جنھیں لگتا ہے کہ وہ ریفری سے زیادہ کھیل کو سمجھتے ہیں۔’

برطانوی اخبار گارڈین سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ‘میں پارلیمان کے بارے میں ہمیشہ پُرجوش رہا ہوں۔

‘مجھے ہمیشہ لگتا رہا ہے کہ یہاں بہتر کام ہو سکتا ہے۔’

بریگزیٹ

اب آگے کیا ہوگا؟

ان کی رخصتی کے بعد نئے سپیکر کا انتخاب اراکین پارلیمان ایک خفیہ ووٹنگ کے ذریعے کریں گے۔

50 فیصد سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار عہدے پر منتخب ہو گا۔

لیکن اگر کوئی بھی امیدوار ایسا نہ کر سکا تو ووٹنگ دوبارہ کی جائے گی۔ کم ووٹ حاصل کرنے والے مقابلے سے باہر ہو جائیں گے اور اراکین ایک شخص کو اکثریت ووٹ ملنے تک کارروائی میں حصہ لیتے رہیں گے۔

روایت یہ رہی ہے کہ سپیکر کا عہدہ دو بڑی جماعتوں، کنزرویٹو اور لیبر پارٹی، میں رہتا ہے۔ اگر روایت اس بار بھی قائم رہی تو اگلا سپیکر لیبر پارٹی کا رکنِ پارلیمان ہو گا۔

کنزرویٹو پارٹی کی رکن ایلینور لینگ نے کہا ہے کہ وہ سپیکر کے اگلے انتخاب میں بطور امیدوار حصہ لیں گی۔ لیبر پارٹی کی طرف سے یہی اعلان کرس بریانٹ نے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp