خودنوشت پل پل کا قصہ ہے


ایک عمر ہوتی ہے جب انسان کی زندگی کی گاڑی کے شاک ابزاربر مضبوط ہوتے ہیں۔ رگوں کے اندر ابھی کولیسٹرول کی تہہ جمنا شروع نہیں ہوتی۔ فشار خون مارے غصے کے بڑھتا تو ہے لیکن بہت جلد معمول پر بھی آ جاتا ہے۔ اس کو نیچے لانے کی خاطر کوئی دوا نہیں لینی پڑتی۔ اذیت کی شدت اگر بہت زیادہ ہو بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ کسی مسکن دوا سے ذہنی دباوؑ کم ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں سب برداشت ہوتا ہے اور سبھی اعمال و رداعمال کے جواز بھی تلاشے جا سکتے ہیں اور تسلیم بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس عمر میں ٹکراتے برتنوں کا شور اس قدر تکلیف دہ نہیں ہوتا کیونکہ برداشت کا مادہ وافر ہوتا ہے۔

اس بار پاکستان کے دورے کے دوران ایک خوش حال اچھے عہدے کے شخص سے ملاقات رہی۔ ان کی اہلیہ بھی پڑھی لکھی اور برسر روزگار ہیں مگر گھر میں کہرام رہتا ہے۔ ایسے میں یہ سمجھنا کہ ہر معاملے کی تہہ میں بدحالی اور معیشت کا غیر متوازن ہونا ہوتا ہے، سطحی سی سوچ لگی۔ اگرچہ تہہ میں کہیں نہ کہیں معیشت کے حجم اور اس کی تقسیم بارے بکھیڑا ضرور ہوتا ہے۔ مگر اختلافات سے متعلق مزاج مختلف ہونا زیادہ اہم ہوتا ہے۔

پھر یہاں تو قصہ ہی اور ہے۔ ایک طویل عرصے سے باپ بچوں کے ساتھ مل کے ایک آدھ گھنٹہ بتا کے چلا جاتا تھا۔ بچوں کو ڈانٹنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ ماں نے بچوں بالخصوص بڑے بچے کی تربیت اس طرح کی جو بیٹی اگر بڑی ہوتی، اس کی کی جانی چاہیے تھی۔ سارے کام تاحتٰی چھوٹے بچے کو فراغت کے بعد پونچھنے تک کا کام اس کے ذمے لگایا ہوا ہے۔ گھر میں ماں کی غیر موجودگی میں ایسا کرنا اور بات ہے مگر جب ماں چند قدم پر بیٹھی موبائل پر سیریل دیکھ رہی ہو یا کچھ سی پرو رہی ہو تب بھی چھوٹا بھائی بڑے بھائی کو ہی مدد کے لیے پکارے گا اور وہ ماں کے حکم کا غلام اس کام پہ بھی کمر بستہ دکھائی دے تو مجھے الجھن ہوتی ہے۔ کہتا ہے میں یہ سب کچھ کرنے کا عادی ہو گیا ہوں۔ میں نے تو خیر ایسا زندگی بھر نہیں کیا، نہ کر سکتا ہوں۔

میں کیونکہ پہلی بار ان کے ساتھ رہنے لگا ہوں۔ اس لیے بہت کچھ ویسا نہیں لگتا جو ہوتا میں دیکھتا آیا ہوں۔ میں نے ایسے بہت سے کاموں میں روسی عورتوں کو بھی اپنے شوہروں یا بیٹوں کو ملوث کرتے نہیں پایا۔ مستزاد یہ کہ میرا بچوں کو جھڑکنا ان کی ماں کو اس قدر چبھے کہ بچھیرے کی مانند کود کر بیچ میں آ پڑے اور بچوں کو ڈانٹ ڈانٹ کے انہیں گھگیا دے۔ جب ردعمل میں مجھے اسے ڈانٹنا پڑے تب اس کے غضب سے روتے وہی بچے الٹا ماں کی حمایت اور میری مخالفت پر اتر آئیں تو یہ اور اذیت دہ ہو جاتا ہے۔ بڑا بچہ کہہ رہا تھا کہ آپ نہیں سمجھتے۔ آپ عورت کی کھال میں نہیں رہے کبھی۔ میرے پوچھنے پہ اس نے کہا کہ ہاں میں رہ رہا ہوں عورت کی کھال میں۔ میں یہ سن کے گھبرا گیا، سچ پوچھیں تو ڈر ہی گیا۔

بچوں کی ماں کو گلہ ہے کہ میں بچوں کو اونچی آواز میں ڈانٹتا ہوں، ہمسائے سن سکتے ہیں۔ لگتا ہے اس نے کبھی ڈانٹتے ہوئے مرد کی آواز نہیں سنی شاید۔ میں بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں، ان کے کسی غلط عمل پہ ڈانٹنا بھی پڑتا ہے، مگر اس کے ردعمل میں جس طرح وہ ڈانٹتی ہے اس کو اپنی آواز کی کھرج سنائی نہیں دیتی۔ اس پر جواز یہ کہ میں ماں ہوں، مائیں ڈانٹا ہی کرتی ہیں۔

نینا مجھے کہتی ہے اف تم کتنے دیوانے نکلے، کس عمر میں خود کو کس طرح کے مخمصوں میں ڈال بیٹھے۔ اب عمر بھی وہ نہیں جس میں خون کی گردش تیز ہو، وریدوں میں کولیسٹرول نہ جما ہو، فشار خون بڑھ جائے تو بڑھا نہ رہ جائے، دوائیاں جلد کارگر نہ ہوں۔ نیند بھی نہ آ سکے۔ کچھ کرنے کو جی نہ چاہے، نہ جائے ماندن ہو نہ پائے رفتن مگر زندگی کوئی کمپیوٹر تو ہے نہیں جہاں Undo کا بٹن ہو۔ یوں خود نوشت پل پل کا قصہ ہی رہتی ہے اور رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).