خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن: ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرتی کراچی کا طالبہ


خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر متعدد سوشل میڈیا صارفین نے ڈپریشن سے متعلق اپنی زندگی کے تجربات شیئر کیے ہیں تاکہ ذہنی صحت کے مسائل پر آگاہی پھیلائی جا سکے۔

ہر سال 10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار بھی ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بڑی تعداد میں لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تقریباً 25 فیصد افراد ڈپریشن، ذہنی دباؤ یا کسی اور دماغی بیماری سے دوچار ہیں۔

اس سلسلے میں مناہل بلوچ نامی ٹوئٹر صارف نے خودکشی کے حوالے سے اپنی زندگی کا تلخ واقعہ ایک پوسٹ کی صورت میں بتایا۔ ان کا کہنا تھا گذشتہ برس انھوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی جس کی بدولت ایک نشان آج بھی ان کے گلے پر موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ڈپریشن اور خودکشی پر بات کیوں نہیں ہوتی؟

’میں نے بیٹے کی موت کے بارے میں سچ بولنا شروع کیا‘

انڈیا: نوجوان خواتین میں خودکشی کی شرح 40 فیصد

20 سالہ مناہل نے لکھا کہ ’ہوش میں آنے پر میں نے خود کو سمجھایا کہ ڈپریشن کو جیتنے نہیں دوں گی۔‘

’میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ ایسی کوشش دوبارہ نہیں کروں گی۔‘

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر مناہل نے بتایا کہ انھیں سکول کے زمانے سے لوگوں کی جانب سے اس لیے تنگ کیا جاتا تھا کہ وہ ’لڑکیوں جیسا برتاؤ‘ نہیں کرتیں تھیں۔

’مجھے لگتا ہے کہ میری زندگی میں ہمیشہ سے ڈپریشن رہا ہے کیونکہ میں نے کم عمری میں ہی مختلف پریشانیوں کی وجہ سے غیر نصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا تھا۔‘

https://twitter.com/surkhminahil/status/1171388087554969600

مناہل کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی سے فلمسازی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلانے کے لیے کام کرتی رہتی ہیں۔

اپنی ذاتی زندگی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں ڈپریشن کو ذہنی صحت کے مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا۔

’مجھے میرے اپنے خاندان والے کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو مت بتایا کرو کہ آپ ذہنی صحت کے مسائل کے حل کے لیے ایک تھیریپسٹ کے پاس جاتی ہیں۔‘

ذہنی دباؤ کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

شاید کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس کی وجہ کا تعین کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے مطابق نوجوانوں میں بڑھتے ذہنی دباؤ کی وجہ کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ان کی زندگیاں بہتر سے بہتر ہونی چاہیے۔

مناہل کے مطابق معاشرے میں شعور اور آگاہی پھیلانے اور ذہنی دباؤ کے مسئلے کو تسلیم کرنے سے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

’ایسا معاشرہ جہاں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ٹھیک نہیں سمجھا جاتا وہاں شاید کوئی آپ کی مدد کو نہ آئے۔ آپ شاید اپنے خاندان والوں سے بھی مدد کی امید نہ رکھ سکیں۔‘

ذہنی دباؤ

’خودکشی کے بارے میں سوچنے پر میں خود کو بتاتی رہتی تھی کہ ڈپریشن میں مبتلا ہونا کوئی برائی نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ مختلف شہروں میں ایسے وسائل موجود ہیں جہاں رابطہ کر کے مدد لی جا سکتی ہے۔ ’ملک میں خودکشی کی روک تھام کے لیے مختلف ہیلپ لائنز بھی دستیاب ہیں۔‘

مگر وہ کون سی بات ہے جو ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کے شکار لوگوں سے کبھی نہیں کہنی چاہیے؟ انھوں نے بتایا کہ ایسے لوگوں کو کبھی یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ان کی زندگی اوروں سے بہتر ہے اور اس لیے انھیں ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔

‘خودکشی کے بارے میں سوچنے والوں کو آپ کبھی یہ مت کہیں کہ کچھ لوگوں کی زندگیاں آپ سے بھی بری ہیں۔

‘ایسا کہہ کر آپ دوسروں کو کیا محسوس کروانا چاہتے ہیں؟ کیاں لوگوں کو اس کا جشن منانا چاہیے کہ ان کی زندگی بہتر ہے؟ ایک افسردہ دل کبھی بھی اس پر خوش نہیں ہو گا۔’

’تعلیمی اداروں میں اس کی تربیت دینی چاہیے‘

کراچی کی طالبہ کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ہم ذہنی صحت کے بارے میں تعلیم کو فروغ دیں اور سکول سے ہی بچوں کی ایسے مسائل کے حوالے سے تربیت دیں۔

’ڈپریشن کے علاج کے لیے کسی ڈاکٹر یا تھیریپسٹ کے پاس جانے میں کوئی برائی نہیں۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ ہمیں تعلیمی اداروں میں بھی ڈپریشن کے بارے میں بات کرنے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔

ذہنی دباؤ

ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ ڈپریشن اور خودکشی کی سوچ رکھنے والے کسی بھی نوجوان شخص کو کیا مشورا دیں گی۔ ان کا جواب تھا ‘میں ان سے کہوں گی کہ آپ جیسے ہو اپنے آپ کو تسلیم کرنے کی کوشش کرو۔

‘آپ کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے کہ آپ کسی سے اچھے یا برے ہیں۔ آپ اپنے اصلی روپ سے ایسے بھاگ نہیں سکتے۔’

ان کا کہنا تھا کہ اپنے بارے میں بات کرنے سے اور دوسروں کے غم و خوشی میں شریک ہو کر ذہنی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ ‘دوسروں کے غم میں شریک ہونے سے زیادہ خوبصورت بات اور کچھ نہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32467 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp