افغانستان پر صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بزکشی


صدر ٹرمپ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ میں اختلافات اُس دن ہی شروع ہوگئے تھے جب، ٹرمپ نے 21 دسمبر 2018 کو شام اور افغانستان سے امریکی فوجی نکالنے کا اعلان کردیا تھا۔ جس پر امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اور امریکی اتحاد کے خصوصی سفیربریٹ مک گروک نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا تھا۔ امن مذاکراتی عمل کے مخالفین میں کچھ جنگجو افراد سینیٹر، لنڈسے گراہم کے علاوہ امریکہ کے تین با اثر قانون سازوں نے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو ایک خط ارسال کیا تھاجس میں انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان ممکنہ معاہدے پر خدشات کا اظہار کیا۔

یہ خط ریاست نیوجرسی سے ایوانِ نمائندگان کے ڈیموکریٹ رکن ٹام میلینوسکی، ریاست وسکونسن سے ایوانِ نمائندگان کے ری پبلکن رکن مائیک گیلاگر اور کیلی فورنیا سے ایوان کے منتخب ڈیموکریٹ رکن بریڈ شرمن نے مشترکہ طور پر لکھا تھا۔ اپنے خط میں ارکانِ کانگریس نے چند سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت، طالبان سے جو بھی معاہدہ کرنے جارہی ہے اس کے تمام مندرجات کانگریس کے سامنے رکھے جائیں۔“ زلمے خلیل زاد کو دوحہ مذاکرات کے چھٹے مرحلے میں کانگریس کی خارجہ کمیٹی نے طلب کیا تھا لیکن زلمے خلیل زاد نے خطوط موصول ہونے کے باوجود کسی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

گزشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر کمیٹی نے نویں دور کے افغان مفاہمتی عمل کے مکمل ہونے پر امریکی صدر کے خصوصی ایلچی کو طلب کیا لیکن زلمے خلیل زاد پیش نہیں ہوئے۔ اہم امر یہ ہے کہ امریکی صدر و اسٹیبلشمنٹ کیایہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے افغان طالبان کو زیر نہیں کیا بلکہ برابری کی بنیاد پر مذاکرات کیے جارہے تھے۔ افغان طالبان مکمل افواج کا انخلا اور اقتدار کی واپسی چاہتے تھے۔ جبکہ امریکا، افواج میں کمی و کابل انتظامیہ کو شریک اقتدار کرانے کے علاوہ جنگ بندی چاہتے تھے۔

امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ گمان کررہی ہے کہ انہوں نے افغان طالبان کو شکست دے دی ہے اس لئے ان کی تمام شرائط کو افغان طالبان کو مان لینا چاہیے۔ ٹرمپ چاہتے تھے کہ نائن الیون والے دن افغان طالبان میڈیا کے سامنے ٹوئن ٹاور پر حملے کی معافی مانگیں اور ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول چڑھائیں۔ جب کہ افغان طالبان سمجھتے ہیں کہ امریکا 19 برسوں میں سوائے شکست کے، فتح کے قریب بھی نہیں آسکا اور اسے افغانستان سے بہرصورت جانا ہے اس لئے جنگ کا خاتمہ امریکہ کی مجبوری ہے۔

دونوں فریقین نے ایک برس سے جاری مذاکرات میں لچک کا مظاہرہ کیا۔ افغان طالبان نے امریکی وفد کی تجاویز میں امریکی افواج کے فوری انخلا میں مہلت دینے میں آمادگی ظاہر کی۔ دوئم اقتدار کی مکمل واپسی کے بجائے انٹرا افغان ڈائیلاگ کے ذریعے افغان گروپوں سے افغانستان کے نظام و انصرام پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے امریکی انتظامیہ سے معاہدے کے بعد مذاکرات پر حامی بھری۔ افغانستان کی سرزمین کو امریکا سمیت کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی۔

اپنے اسیر قیدیوں کی مکمل رہائی سے انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی تک پیچھے ہٹ گئے۔ کابل انتظامیہ کو دیگر گروپوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کرنے کے لئے قطر کے علاوہ بھی دنیا کے کسی بھی ملک میں بات چیت پر آمادگی ظاہر کی۔ لیکن اپنے اس دو موقف کو واضح رکھا کہ جب تک امریکی فوج کا انخلا اور نیا سیکورٹی معاہدہ نہیں ہوتا، افغان طالبان جنگ بندی نہیں کریں گے۔ دوئم کابل انتظامیہ کے ساتھ مسودے پر دستخط سے قبل کسی قسم کا معاہدہ نہیں کریں گے اور انہیں امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں فریق نہیں مانیں گے۔

یہ بڑے واضح نکات تھے اور جب کہ مذاکرات اختتام پا چکے تھے اور صدر ٹرمپ کو مسودے کی منظورری دینی تھی تو ان حالات میں مذاکرات کو منسوخ کیے جانا، جاری جنگ کو مزید بڑھائے گا۔ ان حالات میں امریکا کا مذاکرات سے پیچھے ہٹ جانا، امریکی اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ لگتا ہے۔ صدر ٹرمپ جن معاملات میں ریلیف چاہتے تھے، جنگ بندی کے علاوہ تقریباً ان کی تمام باتوں کو تسلیم کرلیا گیا تھا۔ کابل انتظامیہ نے امریکی اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کردیا کہ اگر انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ مذکرات میں انہیں شریک اقتدار نہیں کرایا تو مستقبل میں ان کا ساتھ دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اور باقی بچے کھچے علاقے بھی افغان طالبان کے قبضے میں چلے جائیں گے۔

مناسب یہی تھا کہ صدر ٹرمپ طے شدہ مسودے کو آگے بڑھاتے اور انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی تک عجلت کا مظاہرہ نہ کرتے۔ حالاں کہ صدر ٹرمپ ’یوٹرن‘ لینے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور ان کے فیصلوں میں سنجیدگی بھی کم دکھائی دیتی رہی ہے۔ ٹرمپ کی قلابازی دراصل امریکی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا واضح نتیجہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).