ڈاکٹر اعزاز نذیر: جو چلے تو کوہ گراں تھے ہم


آپ مخمصے میں پڑ گئے ہوں گے کہ اس مصرعے میں کوئی خامی ہے۔ خامی کوئی نہیں، بس دو لفظوں کو ادھر ادھر کر دیا ہے۔ اصل میں شعر تو یوں ہے :

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم

جو چلے تو جاں سے گزر گئے

مگر میں اپنے دوست اور رہنما ڈاکٹر اعزاز نذیر صاحب کے لیے یہ شعر یوں پڑھا کرتا تھا:

جو چلے تو کوہ گراں تھے ہم

جو رکے تو جاں سے گزر گئے

میرے منہ سے پہلی بار اپنے لیے شعر اس طرح سننے پر انہوں نے چلتے چلتے تیزی کے ساتھ اپنی گردن میری جانب گھما کر، موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے بڑی دکھائی دینے والی آنکھوں کو پھیلاتے ہوئے اور بڑا کرکے پوچھا تھا، ”کیوں بھئی یہ الٹایا ہوا شعر مجھ سے کیوں منسوب کر رہے ہو؟ “ میں نے جواب دیا تھا، ”ڈاکٹر صاحب! اصل میں اس الٹائے گئے شعر کا پہلا مصرعہ آپ کے ڈیل ڈول، حجم اور وزن اوزان کے علاوہ آپ کی استقامت اور آپ کے پیہم تحرّک کی وساطت سے ہے اور دوسرا الٹایا گیا مصرعہ اس لیے کہ آپ کام کرنے کے اس قدر“ نشئی ”ہیں کہ مجھے ڈر ہے جس روز آپ رکے تو آپ جاں سے گزر جائیں گے“۔ اس کے بعد جب بھی انہوں نے اپنے بارے میں مجھ سے یہ طنزیہ اور ستائشی شعر سنا تو اپنی مخصوص میٹھی مسکراہٹ مسکرا کر بس ایسے دیکھ لیا کرتے تھے کہ ابھی کوئی گل فشانی کرنے کو ہیں مگر خاموش رہ کر اپنا تدبّر ظاہر کر دیا کرتے تھے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ ایک روز وہ کام کرتے کرتے رک گئے یعنی

ان پر فالج کا ہلکا سا حملہ ہوا جس نے انہیں کام کرنے سے عاری کردیا اور بالآخر ان کے ارتحال پر منتج ہوا۔

ڈاکٹر صاحب سے میری شناسائی صرف اور صرف کمیونسٹ پارٹی کے توسط سے ہوئی مگر جلد ہی یہ ”فیمیلی فرینڈ شپ“ میں بدل گئی تھی، جس کا موجب اگرچہ اعز عزیزی صاحب تھے، جو اپنے طور پر ایک بھرپور شخصیت اور ایک بہت ہی اچھے انسان ہونے کے ساتھ ڈاکٹر اعزاز نذیر صاحب کے برادر خورد بھی تھے۔ ان سے ہماری دوستی ہو گئی تھی اور ان کی بیگم جو خیر سے ڈاکٹر صاحبہ کی سالی بھی تھیں جنہیں میں کہتا تو بھابی تھا لیکن وہ میری بہنوں سے زیادہ میری بہن تھیں اور اعز صاحب کے بچے میرے بچے۔

جن میں خاص طور پر سب سے چھوٹی بیٹی تھی جسئی میں اس کے چہکنے کی وجہ سے ”مینا“ کہا کرتا تھا۔ مگر اس کنبہ جاتی تعلق کی اصل وجہ تو ڈاکٹر صاحب کا محض ”کامریڈ“ سے بڑھ کر رویہ ہی تھا کیونکہ وہ مجھے اپنا بنا کر اپنے یعنی اعز صاحب کے گھر لے گئے تھے۔ ہم اردو بولنے والے جتنے بھی روایات شکن ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹیں، آپس میں ہم درحقیقتں روایات دوست ہوتے ہیں۔ روایتیں ایک سی ہوں تو قربت کو فروغ پاتے پل بھی نہیں لگتے۔

ڈاکٹر صاحب جب بھی لاہور آتے تو مریدکے میں آ کر میرے ہاں قیام پذیر ہوا کرتے تھے۔ میری سابقہ اہلیہ جو تب حالیہ ہوا کرتی تھیں، کا مزاج بگڑتے دیر نہیں لگتی تھی مگر وہ ڈاکٹر صاحب سے اس قدر شیروشکر رہتی تھیں کہ حیرت ہوتی تھی۔ اس کے برعکس موصوفہ امتیازعالم کے لتّے لیتے میں نہ دیر لگاتی تھیں اور نہ اب لگاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ”شیروشکری“ کا راز یہ کہہ کر کھولا تھا کہ انہوں نے زیرزمین رہنے کے دوران ایک گر سیکھ لیا تھا، ”جس گھر میں اکثر یا تا دیر قیام کرنا ہو اس گھر کی مالکہ کے ساتھ بنا کر رکھنی چاہیے“۔ تو گویا یہ ڈاکٹر صاحب کی حکمت عملی تھی، ہم تو محض ان کے ”لائحہ عمل“ کا ہدف ہوا کرتے تھے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کو ہمیشہ سفید شلوار قمیص میں ملبوس دیکھا۔ وہ اپنی اس ”سفید پوشی“ کا ایک واقعہ بھی سنایا کرتے تھے کہ کسی غیر معروف قصبے کی چاندنی راتوں میں وہاں کی گلیوں میں ہوا خوری کے لیے نکل گئے تو ان کے ایک ”کامریڈ“ نے مشہور کر دیا تھا کہ گلیوں میں رات کو ایک ”سرکٹا“ پھرتا ہے۔ اس لیے کہ ان کی رنگت ”آبنوسی“ تھی۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں حس ظرافت کسقدر تھی۔ شاید انہوں نے اپنے بارے میں یہ قصّہ خود ہی گھڑا ہو۔

میں حسب مراتب کا بہت زیادہ قائل ہوں۔ حسن رفیق صاحب کو تو میں کامریڈ کہہ لیا کرتا تھا البتہ کبھی کبھار چوہدری صاحب کہہ کر بھی مخاطب کر لیتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب کو میں نے کبھی ”کامریڈ“ نہیں کہا تھا، میں انہیں ہمیشہ ڈاکٹر صاحب ہی کہتا تھا۔ ویسے بھی ان کے ساتھ چپکا یہ لاحقہ اتنا معروف تھا کہ متعلقہ حلقوں میں صرف ڈاکٹر صاحب کہنے سے ہی عیاں ہو جاتا تھا کہ ذکر اعزاز نذیر صاحب کا ہی ہے۔ ڈاکٹر صاحب اگرچہ ڈاکٹر واکٹر نہیں تھے، نہ طبّی اور نہ ہی پی ایچ ڈی یافتہ۔ اس بارے میں بھی انہوں نے خود ہی بتایا تھا کہ زیرزمین رہنے کے دوران سندھ کے کسی دیہات میں وہ ایک میڈیکل سٹور پر کام کرنے لگے تھے اور لوگوں نے انہیں ڈاکٹر کہنا شروع کر دیا تھا، یوں وہ ڈاکٹر بن گئے تھے۔

ڈاکٹر صاحب اپنے بارے میں بہت سی باتیں، پوچھے بنا خود ہی بتایا کرتے تھے مثلاً یہ کہ ان کے والد صاحب کا سخت رویہ ان کے منقلب ہونے کا موجب بنا۔ اپنی والدہ صاحبہ کی باتیں بھی بتایا کرتے تھے۔ افسوس کہ انہوں نے اپنی سوانح مرتّب نہیں کی اور نہ ہی میرے جیسے کسی کو خیال آیا کہ ان کی داستان کو درج کر لیتا۔ دراصل سوانح کسی انسان کی زندگی کے اوراق کو جوڑ کر پڑھنے میں مددگار ہوتی ہے، پھر شخصیت بھی اگر اعزاز نذیر صاحب کی سی ہو تو سونے پر سہاگہ، جن کی زندگی مسلسل جہد سے عبارت رہی۔

سچی بات تو یہ ہے کہ نظریے کے بارے میں میں نے ڈاکٹر صاحب سے کچھ بھی نہیں سیکھا تھا کیونکہ مجھے زندگی کے استاد بہت بعد میں ملے تھے جن کے نام ماسٹر فدا حسین گاڈی اور پٹھانے خان تھے، البتہ ایک بار ڈاکٹر صاحب سے ایک چیز کے بارے میں سن کر اس کی جستجو میں بہت آگے نگل گیا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ غالباً 1986 میں کراچی پریس کلب کے عقبی لان میں ایک جلسہ ہوا تھا جس میں ڈاکٹر صاحب نے جوتیاں اتار کر پاؤں جما کر اپنی گھن گرجدار آواز میں ایک تقریر کی تھی جس میں انہوں ے بتایا تھا کہ ہم صبح کو ٹوسٹ پیسٹ کرنے سے لے کر رات کو سونے سے پہلے ماؤتھ واش کے غرارے کرنے تک کتنی رقم فی فرد غیر ملکی کمپنیوں کو دے دیتے ہیں۔

بس اس کے بعد مجھے ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کارپوریشنوں کے بارے میں جاننے اور لکھنے کا لپکا ہو گیا تھا۔ تاحتٰی ایک وقت آیا کہ میرے حلقے کے لوگوں نے ”ملٹی نیشنل“ کہنا میری چھیڑ یا میرا نام بنا دیا تھا۔ اس طرح آگے چل کر ”گلوبلائزیشن“ سے شناسائی ہوئی اور آج میں اینٹی گلوبلسٹوں کو تبدیلی کے داعی سمجھتا ہوں۔ یوں ڈاکٹر صاحب بہر طور میرے استاد ٹھہرے۔

پیچھے امام کے اللہ اکبر کہنے کی عادت تو کمیونسٹوں کی بہت پرانی تھی۔ میں اس کا ہمیشہ مخالف رہا کیونکہ میرے خیال میں جس طرح آم کے پیڑ کو ملتان سے لا کر ماسکو میں نہیں لگایا جا سکتا اس طرح کسی دور کے سرد دیس کے معاملات کو بھی اپنے گرم ملک کے معاملات پر منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ابھی ”لائن“ نہیں آئی تھی کہ میں ”پیری ستروئیکا“ کا حامی بن چکا تھا (یاد رہے گورباچیوو کی کتاب ”پیریستروئیکا“ سب سے پہلے لندن سے چھپی تھی، جو میں پڑھ چکا تھا) ۔

اور جب لائن آ گئی تو میں ہمیشہ ”حزب اختلاف“ کا ہونے کی وجہ سے جان بوجھ کر ”پیریستروئیکا“ کا مخالف ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر اعزاز نذیر بلا کے ”سازشی“ تھے، انہوں نے میری اس روش سے ہی فائدہ اٹھا کر مجھے ”اقلیت“ یعنی پارٹی کے خیالات میں تبدیلی لانے والے لوگوں کے خلاف ”اپنے شیشے“ میں اتارنے کی سعی کی تھی، میں تو ویسے بھی جیسا کہ پہلے بتا چکا ہوں حسب مراتب کا خیال رکھتا ہوں، چنانچہ رضاکارانہ طور پر سیڑھیاں اتر کر ان کے اس شیشے میں پہنچ گیا تھا۔

جب پارٹی میں بٹوارہ ہو گیا تو میں ان کے ہمراہ ہی شاہجو (میاں شہباز) کے اپارٹمنٹ میں پہنچا تھا۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو اپنی ہی ”سازش“ کے کامیاب ہونے پر جتنا اداس تب دیکھا تھا اس سے پہلے دیکھا ہی نہ تھا، شاہجو کی لن ترانی بھی انہیں بولنے پر مائل نہ کر سکی تھی۔ دکھی تو ہونا ہی تھا، اس کے بعد نہ ”اکثریت“ اکثریت رہ سکی اور نہ ہی ”اقلیت“ کچھ کر سکی۔ کمیونسٹ پارٹی کا بستر گول ہو گیا۔

ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر ”عقیدہ پرست“ تھے اور میں ”عقیدہ مخالف“ اس لیے بہت سی باتوں پر اختلاف رہتا تھا۔ وہ کمیونزم کو ایک ”عقیدے“ کے طور پر لیتے تھے اور میں اسے ایک ”طرز معیشت اور طریق سیاست“ کے طور پر۔ شاید ہم میں ”نسلوں“ کا فرق تھا یا ہماری نفسیات مختلف تھی اگرچہ بچپن کا معاملہ کم و بیش ایک سا رہا تھا۔ میرا باپ بھی سخت تھا اور میری ماں نرم، عبادت گزار اور ترقی پسند سوچ کی کسی حد تک حامی۔ بہرحال ڈاکٹر صاحب سے اختلاف کرنے سے بھی ہمارے ذاتی تعلقات متاثر کبھی نہیں ہوئے تھے، تبھی تو مجھے :

جو رکے تو جاں سے گزر گئے

کے امین ڈاکٹر اعزاز نذیر آج بھی یاد ہیں اور یاد آتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).