ٹراوٹ مچھلی، طالبان اور سفید دیو


شمالی علاقہ جات میں جا کر بھی جس نے ٹراوٹ مچھلی نہیں کھائی گویا اس نے شمالی علاقہ جات، خاص طور پر ناران، سوات اور نیلم ویلی کی بے قدری کی۔ یہ چھوٹے سائیز کی مچھلی جو صرف ٹھنڈے پانی میں رہتی ہے ذائقے اور طاقت میں لا جواب ہے۔ ٹراوٹ مچھلی کی پاکستان میں تین اقسام پائی جاتی ہیں۔ رین بو اور براون انگلستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئی ہیں جبکہ سنو ٹروٹ یہاں کی لوکل مچھلی ہے۔ ان کا فرق بھی دیسی اور ولائتی والا ہے۔

سوات ویلی میں تو بہت سے ٹراوٹ فش فارم بنے ہوئے ہیں۔ سوات پر طالبان کے قبضے سے پہلے ایک بار مدائن میں سرکاری فش فارم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ بڑی مچھلی اور چھوٹے بچوں کے علیحدہ علیحدہ تالاب بنے ہوئے تھے۔ طالبان کے زمانے میں یہ فش فارم تباہ ہو گئے کیونکہ وہ مفت کی کھاتے تھے۔ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف تھے۔ خلاف شرع کام پسند نہیں کرتے تھے لوٹ مار کی ٹراوٹ مچھلی مفت کا مال اور بالکل حلال سمجھ کر کھاتے تھے۔

گن پوائنٹ پر مچھلی پیدا کی جا سکتی ہے نہ موٹی کی جا سکتی ہے۔ بہت سے فارمر طالبان کے خوف سے کاروبار چھوڑ کر بھاگ گئے۔ رہی سہی کسر 2010 کے سیلاب نے پوری کردی۔ سیلاب ہر چیز کے ساتھ مچھلی بھی بہا کر لے گیا۔ اب حکومت کی توجہ سے یہ فارم دوبارہ بحال ہو رہے ہیں۔ اس وقت شمالی علاقوں کی بارہ جھیلوں اور تین دریاوں میں ٹراوٹ کی افزائش کی جارہی ہے۔

چائے اور ٹراوٹ کھا کر جب ہم ناران پہنچے تو مغرب ہو رہی تھی۔ ناران میں داخل ہوتے ہی ڈیزل کی بدبو کے ایک بھبکے نے ہمارا استقبال کیا۔ یوں تو ہم لاہور میں اس پالوشن کے عادی ہو چکے تھے لیکن دو دن سے خالص ہوا کے مزے لے رہے تھے، اس لئے یہ بدبو انتہائی ناگوار گزری۔ ایسے لگا جیسے لاہور واپس آگئے ہوں۔ ناران میں کوئی ایک ہزار کے قریب جیپیں یہ گند پھیلارہی ہیں۔ ان کو چالو حالت میں رکھنے کے لئے کئی ورکشاپس بن گئی ہیں جو مزید پالوشن پھیلا رہی ہیں۔

آج سے تیس سال قبل جب میں ناران آیا تھا تو ناران واقعی ایک پرفضا مقام تھا مگر اب اسے پرفضا کہنا صریحاً زیادتی ہو گی۔ ناران میں سینکڑوں ہوٹل ایک تنگ سڑک کے اطراف میں پھیلے کسی کچی آبادی کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ سیورج کا پانی گندی نالیوں سے نکل کر اسی سڑک پر بہتا ہوا نہ جانے کہاں ڈمپ ہوتا ہے۔ سڑک پر پیدل چلنا اتنا ہی دشوار ہے جتنا اچھرے بازار میں۔ گندے پانی کے چھینٹے آپ کے جوتے اور کپڑے گندے کر دیتے ہیں۔ ویک اینڈ پر اتنے سیاح آتے ہیں کہ ہوٹل کم پڑ جاتے ہیں اور لوگ اپنی گاڑیوں میں ہی رات گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

صبح ناشتے کے لئے اپنے ہوٹل کے سامنے ہی پنجاب تکہ ہاؤس کا بہت بڑا ڈھابا نظر آیا۔ گزشتہ سال بھی یہی ڈھابا کام آیا تھا۔ جتنے دن ناران رہے انہی کے کھانوں سے پیٹ پوجا کرتے رہے۔ ناشتے کے بعد جھیل سیف الملوک جانے کا ارادہ تھا، مگر بیگم کی طبیعت کی خرابی کے باعث رکنا پڑا۔ ان کو پتّے کا درد ہوا تھا۔ اگرچہ میڈیسن کٹ ہمارے پاس تھی مگر ان کے فزیشن کے مشورے سے ایک بار ہسپتال جانا پڑا۔ ناران میں یہ چھوٹا سرکاری ہسپتال، ناران سے سیف الملوک جاتے ہوئے پل کے ساتھ ہی دائیں ہاتھ واقع ہے۔

ناران میں دو تین میڈیکل سٹور بھی موجود ہیں جہاں سے دوا کے ساتھ میڈیکل ایڈوائس بھی مل جاتی ہے۔ اگرچہ بیگم کا درد جلد ہی ٹھیک ہو گیا مگر ان کے لاہور میں موجود فزیشن کی ایڈوائس پر ہمیں سفر سے رکنا پڑا۔ وقت گزارنے کے لئے چھوٹو اور عاشی کے ساتھ ہم پیدل شہزادی والی غار کی طرف چل پڑے۔ ہم ناران کے دوسرے کونے میں ٹھہرے ہوئے تھے اس لئے پورا ناران پیدل کراس کرنا پڑا۔ راستے میں پھلوں کی دکان سے ہم نے چیری خریدی اور جس مقام پر سیف الملوک ندی دریائے کنہار سے ملتی ہے وہاں ایک پتھر پر پاوں ندی کے ٹھنڈے پانی میں لٹکا کر بیٹھ گئے۔

چیری کا شاپر ندی کے پانی میں ڈال دیا۔ پانی اتنا ٹھنڈا تھا کہ ایک منٹ میں پاوں باہر نکالنا پڑا۔ چھوٹو ایک پتھر سے دوسرے پتھر پر چلتی ندی کے درمیان میں جا بیٹھی۔ دھوپ تھی مگر بادلوں کے آوارہ ٹکڑے تھوڑی تھوڑی دیر بعد سایہ کر رہے تھے۔ تیز ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے دھوپ خوشگوار لگ رہی تھی۔ ایسے میں کھٹی میٹھی چیری نے موسم اور ماحول کو انتہائی خوشگوار بنا دیا۔

ہم کافی دیر وہاں موسم اور ٹھنڈے پانی کے مزے لیتے رہے۔ واپسی پر چھوٹو نے وہ غار دیکھنی تھی، جس میں پری بدیع الجمال اور شہزادہ سیف الملوک نے سفید دیو کے ڈر سے بھاگ کر پناہ لی تھی۔ ہم اس غار کے اندر پھرتے رہے۔ چھوٹو کی معلومات کے مطابق دونوں اس سیلاب میں بہ گئے تھے جو سفید دیو نے جھیل سیف الملوک کے ایک کنارے کو توڑ کر تیز پانی ناران کی طرف دھکیلا تھا۔ عاشی کا خیال تھا شہزادہ اور پری دونوں بچ گئے تھے اور دونوں نے شادی کرلی تھی۔ ہم نے یہ کہانی ہر بار جھیل پر سنی تھی اس لئے اس میں کوئی تھرل نہیں تھی۔ دیو مالائی کہانیاں سنتے ہوئے مزہ تو آتا ہے مگر یقین کر لینے والوں کی سادگی پر افسوس بھی ہوتا ہے۔

ہوٹل واپس پہنچے تو بیگم کی طبیعت ٹھیک تھی۔ جھیل پر جانے کا پروگرام بن گیا۔ ہر بار جھیل کی کشش بیگم کی طبیعت میں عجیب طرح کا اضطراب پیدا کر دیتی ہے لیکن جھیل پر پہنچ کر وہ جھیل کے پانی کی طرح پر سکون ہو جاتی ہے۔ دوپہر کا وقت تھا اور بازار میں کوئی جیپ نظر نہیں آرہی تھی۔ کافی دیر کے بعد ایک جیپ ملی جسے منہ مانگا کرایہ دینا پڑا۔

جھیل سیف الملوک برف پوش پہاڑوں میں گھری ایک خوبصورت جھیل ہے جس کے پانی کا رنگ دن میں کئی بار بدلتا ہے۔ ان برف پوش چوٹیوں میں سب سے اونچی چوٹی ملکہ پربت ہے جو سترہ ہزار فٹ بلند ہے مقامی لوگوں کے مطابق۔ یہ چوٹی ابھی تک سر نہیں کی جا سکی۔ اس چوٹی کے بارے میں بھی ایک داستان ہے۔ کہتے ہیں اس چوٹی کو شہزادے نے بد دعا دی تھی کیونکہ سفید دیو کا اسی پہاڑ پر بسیرا تھا۔ حقائق بتاتے ہیں کہ یہ چوٹی دو بار سر کی جا چکی ہے۔

جھیل سیف الملوک جو کبھی پوتر ہوتی تھی جس کے شفاف پانی میں آپ کو اپنا عکس نظر آتا تھا، اس کا پانی گدلا ہوتا جا رہا ہے۔ جھیل کے ارد گرد بیٹھ کر لوگ پھلوں کے چھلکے، خالی بوتلیں، گندے شاپر اور نہ جانے کیا الا بلا پھینک رہے ہیں۔ صفائی کا انتظام ناقص ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ جھیل کے گرد بننے والے ہوٹلوں کا سیورج بھی جھیل میں ڈال دیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).