پاکستانی فلموں میں غیر مناسب لباس


میں بہت سالوں سے پاکستانی فلموں کی ایک بڑی سپورٹر ہوں اور انڈین فلموں کے پاکستانی سنیما میں چلنے کی بہت بڑی مخالف، اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ 5 فروری کو یومِ کشمیر منا لینے سے ہم کشمیریوں کو وہ فائدہ نہیں دیتے جتنا نقصان ہم انڈین فلموں کو بزنس دے کر دیتے ہیں۔ یہی پیسہ انڈیا کے ڈیفنس بجٹ کو مضبوط کر کے نہ صرف کشمیر میں بلکہ لائین آف کنٹرول پر ہمارے شہریوں اور ہمارے فوجیوں پر استعمال ہوتا ہے۔ اپنی دکھتی رگ سے اپنے آج کے اصل موضوع یعنی پاکستانی فلموں پر آتی ہوں۔

میں پاکستانی فلموں کی سپورٹر اس لیے ہوں تاکہ زیادہ سے زیادہ اور اچھی اچھی فلمیں بنیں اور اچھی فلم کے لئے ضروری ہے اچھی کہانی، اچھی ایکٹنگ، اچھی ہدایتکاری، اچھا میوذک نہ کہ عریاں لباس۔ یہ صرف اس صورت میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے اگر یہ کسی رول کی ڈیمانڈ ہو بلاوجہ ایسے لباس کو فروغ دینا بہت بڑی زیادتی کے مترادف ہے۔ کافی فلموں میں کوئی نہ کوئی ایک اداکارہ ایسے کسی رول میں ہمیں نظر آ جاتی تھی مگر ’پرے ہٹ لو‘ میں تو تمام لڑکیوں کو ماڈرن دکھانے کے لیے سارا کمپرومائز کپڑوں پر ہی کیا گیا تھا۔

کیا یہ ماڈرنٹی کی نشانی ہے یا پھر جہالت کی؟ فلم اور گلیمر بے شک لازم و ملزوم ہیں لیکن گلیمرس خاتون اچھے، باوقار کپڑے پہن کر بھی دکھائی جا سکتی ہے اور اسی فلم میں زارا نور عباس نے یہ ثابت بھی کیا۔ سلام ہے زارا کو کہ تمام خواتین اداکاروں میں سے زارا وہ واحد اداکارہ تھی جس نے پورے کپڑے پہنے اور شادیوں کے تمام سینز میں بہت حسین بھی نظر آ رہی تھی۔ ۔ مناسب لباس کے علاوہ جس بیماری کی نشاندہی میں کرنا چاہتی ہوں وہ ہیں آئٹم سونگز جو کہ اتنے ضروری ہو چکے ہیں ہمارے لیے کہ اگر فلم میں کہیں فٹ نہ ہو سکے تو بلاوجہ، بلاضرورت فلم کے آخر میں ڈال دیا جاتا ہے گویا کہ فلم نامکمل تھی اس کے بغیر۔

اس سب کے خلاف آواز اٹھانا اب انتہائی ناگزیر ہو چکا ہے۔ عاصم رضا اور شہریار منور کی پہلی کاوش ’ہو من جہاں‘ میں یہ بات قابلِ ستائش تھی کہ اس فلم کے گانے پاکستان کی بہت سی علاقائی زبانوں میں تھے۔ ’پرے ہٹ لو‘ میں بھی پارسی کلچر دکھایا گیا اور کشمیری کلچر کا ذکر کیا گیا مگر افسوس اپنے کلچر اور اپنی روایات کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔ آئیں سب مل کر آواز اٹھائیں اس کے خلاف جہاں جہاں اٹھا سکتے ہیں تا کہ ہمارے اداکار، ہدایتکار، پروڈیوسر حضرات اور سنسر بورڈز آیندہ اس چیز کا خیال رکھنے پر مجبور ہوں۔ میں نے سوشل میڈیا پر بھی آواز اٹھائی ہے (لنک نیچے دیا گیا ہے ) اور سٹیزنز پورٹل پر بھی۔ آپ میں سے جو بھی میری بات سے اتفاق کرتا ہے برائے مہربانی اسے پھیلائے اس سے پہلے کہ یہ معاملہ بالکل ہی ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=10206150220832314&id=1767351896&sfnsn=mo


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).