اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو کا غرب اردن کو اسرائیل میں شامل کرنے کا وعدہ


Jordan Valley

اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یایو نے کہا ہے کہ اگر وہ انتخابات میں دوبارہ کامیاب ہو گیے تو وہ مقبوضہ غرب اردن کے ایک سرحدی علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔

نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی حاکمیت کو وادی اردن اور شمالی بحیرہ مردار تک پھیلا دیں گے۔

ایسا اقدام دائیں بازو کی جماعتوں میں بہت مقبول ہو گا جن کی وہ حمایت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ فلسطینی اس اقدام کے سخت مخالف ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

گولان کی پہاڑیاں: صدر ٹرمپ نے سب بدل دیا!

یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہے: ڈونلڈ ٹرمپ

غربِ اردن کی بستیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے کا عہد

نتن یاہو

منگل کو اسرائیل میں انتخابات ہیں جن میں نتن یاہو کا مقابلہ دائیں بازو کی ایسی جماعتوں سے ہے جو غربِ اردن کو ضم کرنے کی حمایت کرتے ہیں

فلسطینی رد عمل

فلسطینی چاہتے ہیں کہ غرب اردن کا تمام علاقہ ایک دن ان کی ریاست کا حصہ ہوگا۔ انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے اسے امن کے ہر امکان کو تباہ کرنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 1967 کی جنگ کے وقت سے غرب اردن پر قبضہ کر رکھا ہے لیکن اسے اسرائیل میں شامل نہیں کیا ہے۔

منگل کو اسرائیل میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں جن میں نتن یاہو کا مقابلہ دائیں بازو کی ایسی جماعتوں سے ہے جو غربِ اردن کو اسرائیل میں ضم کرنے کی حمایت کرتی ہیں۔

نیتن یاہو جو دائیں بازو کی جماعت لیکود پارٹی کے سربراہ ہیں، اپنی انتخابی مہم میں مصروف ہیں۔

انتخابی جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لیکود پارٹی کا دائیں بازور کی بلو اینڈ وائٹ سیاسی جماعت سے کانٹے کا مقابلہ ہے۔

نتن یاہو نے ایسا کیوں کہا؟

اسرائیل میں چھ ماہ میں دوسری بار انتخابات ہو رہے ہیں اور عوامی جائزوں کے مطابق اس بار بھی سخت مقابلے کی وجہ سے اسی طرح کا نتیجہ متوقع ہے جو گذشتہ اپریل میں سامنے آیا تھا۔ اپریل میں انتخابات کے بعد کسی جماعت کو واضح برتری نہ ملنے کی وجہ سے کوئی حکومت نہیں بنا سکی تھی۔

ٹی وی پر ایک تقریر میں وزیر اعظم نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اگر میں اسرائیل کے شہریوں سے ایسا کرنے کے لیے ایک واضح مینڈیٹ حاصل کر لیتا ہوں تو میں آج اپنے ارادوں کا اعلان کر رہا ہوں جن کا اطلاق اگلی حکومت قائم ہوتے ہی ہو جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ مقبوضہ اردن میں قائم تمام یہودی بستیوں کو بھی اسرائیل میں شامل کریں گے لیکن اس کے لیے عوام کو امریکی صدر ٹرمپ کے اس دیرینہ امن معاہدے کی اشاعت کا انتظار کرنا پڑے گا جسں میں صدر ٹرمپ اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین دیرپا امن کا منصوبہ رکھتے ہیں۔

غرب اردن کے تنازعے کا پس منظر

اسرائیل نے 1967 کی جنگ کے دوران غرب اردن، مشرقی یروشلم، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس نے مشرقی یروشلم کو تو سنہ 1980 اور گولان کی پہاڑیوں کو سنہ 1981 میں عملاً اپنا حصہ بنا لیا تھا، تاہم اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر قبول نہیں کیا گیا تھا۔

امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ اپنے سے پہلے آنے والی امریکی حکومتوں کی پالیسی کے برعکس ان دونوں فیصلوں کو قبول کر چکی ہے۔

غرب اردن کی حیثیت کا فیصلہ اسرائیلی فلسطینی تنازعہ کی تہہ تک جاتا ہے۔ اسرائیل نے غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں 140 آبادیاں قائم کی ہیں جنھیں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیل اس سے متفق نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32503 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp