ہسپتال انتظامیہ کی عدالت سے استدعا: ’دماغی طور پر معذور پانچ سالہ بچی کو مرنے دیا جائے‘


تفیدہ رقیب

Family Handout
بچی کی دماغ کی رگیں پھٹ چکی ہیں اور اب اسے مصنوعی نظام کی مدد سے زندہ رکھا جا رہا ہے

لندن کے ایک ہسپتال کی انتظامیہ نے ہائی کورٹ کے جج سے اپیل کی ہے کہ ذہنی طور پر معذور ایک پانچ سالہ بچی کے والدین کی اس درخواست کو مسترد کر دے جس میں انھوں نے استدعا کی ہے کہ بچی کو مزید علاج کے لیے اٹلی منتقل کیا جائے۔

رائل لندن ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ تفیدہ رقیب نامی بچی کے صحت مند ہونے کی کوئی امید نہیں ہے اور اب اس (بچی) کو مرنے کی اجازت دینا ہی اس کے بہترین مفاد میں ہو گا۔

تفیدہ کے والدین اسے اٹلی کے شہر جینوا میں قائم بچوں کے ایک ہسپتال میں مزید علاج کے لیے منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم رائل لندن ہسپتال کا کہنا ہے کہ عدالت یہ فیصلہ دے کہ زیرِ علاج بچی کو لگایا گیا لائف سپورٹ سسٹم بند کر دیا جائے کیونکہ بچی کے حق میں یہی بہتر ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

بچے کو کب تک ماں کا دودھ پلایا جائے؟

اضافی وٹامن ڈی، ضروری یا پیسے کا ضیاع؟

’کہا گیا کہ ڈاکٹر چھوڑیں، بچی کو سکون سے مرنے دیں‘

بچی کے والدین کا اصرار ہے کہ اٹلی کے اس ہسپتال میں وہ اپنی بچی کو اس وقت تک لائف سپورٹ سسٹم پر رکھیں گے جب تک کہ اسے دماغی طور پر مردہ قرار نہ دے دیا جائے۔

ان کا دعوی ہے کہ این ایچ ایس ٹرسٹ کے اہلکار انھیں بچی کو اٹلی لے جانے سے روک کر ان کے ساتھ غیر قانونی طور پر امتیازی سلوک برت رہے ہیں۔

ہسپتال انتظامیہ کی نمائندگی کرنے والی وکیل کولپ کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں ڈاکٹروں اور ججوں کی قانونی ذمہ داری والدین کی خواہش پوری کرنا نہیں بلکہ بچی کے بہبود کا خیال کرنا ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ تفیدہ کے والدین اس ملک میں جانے کا حق مانگ رہے ہیں جہاں وہ ہر فیصلہ اپنی مرضی سے لے سکتے ہیں جو بچی کےعلاج کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔

بچی کو کیا بیماری لاحق ہے؟

کولپ نے عدالت کو بتایا کہ فروری کے مہینے میں ایک صبح تفیدہ نے اپنے والدین کو بتایا کہ اس کے سر میں شدید درد ہے اس کے فوراً بعد ہی بچی بیہوش ہو گئی، ہسپتال پہنچنے پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کے دماغ کی رگیں پھٹ چکی ہیں۔

ٹرسٹ کی وکیل نے بتایا کہ تفیدہ نہ تو اب کچھ کھا سکتی ہے اور ہی نہ دیکھ سکتی ہے اور اس کیس پر کام کرنے والے تمام ڈاکٹروں جن میں اٹلی کے ڈاکٹر بھی شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ بچی کے ٹھیک ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اٹلی کا ہسپتال بچی کو لائف سپورٹ سسٹم مہیا کرواتا رہے اور والدین کو لگے کا کہ ان کی بچی زندہ ہے۔

کولپ کا کہنا تھا کہ پانچ سال کی بچی کو مصنوعی سسٹم کی مدد سے زندہ رکھنے کا مطلب ہو گا کہ وہ مزید تکلیف میں رہے گی اور ایسا کرنے سے بچی کو دورے پڑیں گے، ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی ہو جائے گی اور کولہے کی ہڈیاں بھی مڑ جائیں گی۔

بچی کی والدہ کا دعوی ہے کہ تفیدہ کو ویڈیو لنک کے ذریعے اٹلی کے دو معالجین نے دیکھنے کے بعد بچی کا علاج کرنے کی حامی بھری ہے تاہم ہسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مزید علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

کیا ہسپتال والدین کے خواہشات کے برعکس جا سکتے ہیں؟

انگلینڈ اور ویلز میں نافذ چلڈرن ایکٹ 1989 میں والدین کی ذمہ داری کے قانون کا تعین کیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت والدین کے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کریں بشمول ان کے علاج معالجے میں۔

تفیدہ رقیب

Family Handout
والدین بچی کو اٹلی لے جانا چاہتے ہیں اور اب یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے

لیکن بچوں کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کا یہ حق مطلق (کامل) نہیں ہے۔

اگر ایک عوامی ادارہ یہ سمجھتا ہے کہ والدین کا انتخاب یا فیصلہ ان کے بچے کے بہترین مفاد میں نہیں ہے تو ایسا فیصلہ یا انتخاب عدالت میں چیلنج ہو سکتا ہے۔

اور پھر یہ عدالت کے جج پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ شواہد کی بنیاد پر حتمی فیصلے دے۔

قانون میں والدین یا ڈاکٹرز میں سے کسی ایک فریق کو درست نہیں مانا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ بچے کے بہترین مفاد میں کیا ہے۔

عدالت اب شواہد کو جانچے گی، بچی کی موجودہ حالت دیکھے گی، اسے بیرون ملک منتقل کرنے اور مزید علاج میں کامیابی کے تناسب کو دیکھے گی اور اپنا فیصلہ صادر کرے گی جو کہ بچی کے مفاد میں ہو گا۔

اور یہ فیصلہ ہونے تک ہسپتال بچی کو زندہ رکھنے والے مصنوعی سسٹم کو اس سے جدا نہیں کرے گا تاآنکہ کہ بچی کے والدین خود اس کی تحریری اجازت نہ دے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32488 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp