آسام کے رہائشی: ’اتنا کچھ کھونے کے بعد ہم اس شہریت کا کیا کریں؟’


آسام

نزرل کے بھائی نوبیزر نے اپنی زندگی کا پہلا برس اپنی ماں کے ساتھ جیل میں گزارا۔ اب وہ سات برس کے ہیں

انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام میں حکومت کی جانب سے شہریت کی حتمی فہرست کے اجرا کے بعد 19 لاکھ سے زیادہ افراد کی انڈین شہریت مشکوک ہو گئی ہے۔ جو افراد 31 اگست کو شائع ہونے والی فہرست میں انڈین شہری شمار نہیں کیے گیے ان کے پاس اس فہرست سے اخراج کے خلاف خصوصی ٹرائیبونل میں اپیل کرنے کے لیے 120 دن کا وقت ہے۔ بی بی سی ہندی کی نمائندہ پرینکا دوبے نے آسام میں اس فہرست سے متاتر ہونے والے چند خاندانوں سے بات کی ہے۔

آسام کے علاقے دھوبری کی رہائشی شہیدا بی بی اپنے ایک کمرے کے گھر میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کی تصویر پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔

جب وہ اسے دیکھتے دیکھتے تھک جاتی ہیں تو وہ اپنے گھر کے مرکزی دروازے پر بیٹھ جاتی ہیں۔

مزید پڑھیں

انڈین ریاست آسام کے 19 لاکھ باشندوں کی شہریت ’مشکوک‘

’کیا سپیلنگ کی غلطی سے میں غیرملکی بن گئی؟‘

آسام میں ملک بدری کے خوف اور صدمے سے خودکشیاں

شہیدا بی بی کے پاس اپنے آنجہانی بیٹے نذرالاسلام کی کوئی تصویر موجود نہیں۔ نذرل جو صرف 45 دن کے تھے، آسام میں سنہ 2011 میں قائم کردہ حراستی کیمپ میں ہلاک ہونے والے 25 افراد کی اس فہرست میں شامل تھے جو ریاستی حکومت نے جاری کی تھی۔

ریاستی اسمبلی میں یہ فہرست جاری کرتے وقت چندر موہن پٹواری نے ہلاکتوں کی وجہ ‘بیماری’ بتائی تھی۔

تاہم شہیدا بی بی کہتی ہیں کہ ان کا بچہ حراستی کیمپ کے سخت ماحول کو برداشت نہیں کر پایا۔

حراست میں ہلاک ہونے والا کم عمر ترین بچہ

شہیدا کے قصبے دھوبری کے پاس عظیم دریا برہمپترا بہتا ہے۔ ہم نے ان کے گھر کے صحن میں ان سے بات کی جہاں وہ مچھلیاں پکڑنے کے بعد انھیں رسیوں پر لٹکا کر سکھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ عام طور پر ان رسیوں پر کپڑے سکھائے جاتے ہیں۔

وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو آسام میں مشکوک شہریت کے باعث پہلے بھی متاثر ہو چکی ہیں۔

مئی سنہ 2011 میں جس رات انھیں کوکراجھاڑ حراستی سینٹر لے جایا گیا تو شہیدا کے جڑواں بچوں نذرل اور نوبیزر صرف 14 دن کے تھے۔

اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا: ’نذرل کی حالت اس وقت ہی ابتر ہونے لگی تھی جب ہم نے کوکراجھاڑ کی جانب سفر شروع کیا۔ جب ان کی حالت بہت خراب ہونے لگی تو جیل کے حکام نے مجھے گوہاٹی میں ایک ڈاکٹر کے پاس بھیجا۔‘

آسام

‘میرا بیٹا مر گیا، میری زمین بک گئی، میرا خاوند بھی مر گیا۔ اتنا سب کچھ کھونے کے بعد میں اس شہریت کا کیا کروں گی؟’

شہیدا کے مطابق وہ ڈاکٹر چاہتا تھا کہ نذرل کو معائنے کے غرض سے ہسپتال میں رکھا جائے لیکن کیونکہ انھیں اس کے ساتھ رکنے کی اجازت نہیں تھی اس لیے دونوں کو جیل واپس جانا پڑا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’کچھ ہفتوں میں ہی اس کا انتقال ہو گیا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا اور میں اس کی ہلاکت کے تین دن تک بے ہوش رہی۔’

بچے کی ہلاکت کے بعد اس کی لاش شہیدا کے بھائی کے حوالے کر دی گئی جنھوں نے بعد میں انھیں دفن کیا۔

نذرل کے بھائی نوبیزر نے اپنی زندگی کا پہلا برس اپنی ماں کے ساتھ جیل میں گزارا۔ وہ جیل کی سختیاں برداشت کر گئے اور اب وہ سات برس کے ہیں۔

سنہ 2012 میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے شہیدا کو انڈین شہری قرار دے کر رہا کر دیا تھا۔

محبت کرنے والا شوہر

اپنے آنجہانی شوہر کے بارے میں سوچتے ہوئے شہیدا کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ اپنے شوہر کو یاد کرتے ہوئے وہ بہت دھیمی آواز میں کہتی ہیں کہ ‘میرے شوہر نے ہماری تمام زمین اس کیس کو لڑتے ہوئے بیچ دی۔ اس نے مجھے میری شہریت لوٹانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتا تھا۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر نے قرضے بھی لیے اور وہ شہیدا سے جیل میں باقاعدگی سے ملنے بھی آتے تھے۔

انھوں نے بتایا: ’چونکہ مجھے جیل کا کھانا پسند نہیں تھا تو وہ 42 ہفتے جن میں میں جیل میں تھی، وہ ہر ہفتے میرے لیے پھل اور گھر کا بنا ہوا کھانا لایا کرتے تھے۔‘

شہیدا کے مطابق ان کے شوہر اپنے گھر کی مالی حالات کی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے قرضے اتنے زیادہ تھے کہ ہم کبھی بھی انھیں واپس نہ کر پاتے۔

’وہ مسلسل ہماری فروخت کردہ زمین اور مالی صورتحال کے بارے میں فکرمند رہتے تھے۔ اور پھر ایک دن وہ بھی چلے گئے۔’

شہیدا کا نام این آر سی کی جانب سے جاری کردہ حالیہ فہرست میں بھی شامل ہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ کیا شہریت حاصل کرنے کے لیے خصوصی ٹریبونل کو درخواست دیں گی، تو وہ خاموش ہو جاتی ہیں۔

پھر ایک سپاٹ چہرے سے وہ کہتی ہیں کہ ‘میرا بیٹا مر گیا، میری زمین بک گئی، میرا خاوند بھی مر گیا۔ اتنا سب کچھ کھونے کے بعد میں اس شہریت کا کیا کروں گی؟’

آسام

انارا کہتی ہیں کہ ‘جب میری بچی پوچھتی ہے کہ میرے ابو کہاں ہیں تو میرا رونے کا دل چاہتا ہے۔‘

بابا کب واپس آئیں گے؟

انارا خاتون کی چھ سالہ بیٹی شاہین اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔ انارا کے شوہر قدم علی ‘مشکوک ووٹر’ کیس کے سلسلے میں گوالپورا کے حراستی سینٹر میں پچھلے تین برس سے رہ رہے ہیں جس کے باعث انارا اب تک اپنی بیٹی کے آپریشن کے لیے دس ہزار روپے اکھٹے نہیں کر سکیں۔

اپنی بچی کو وہیل چیئر پر بیٹھاتے ہوئے وہ بتاتی ہیں کہ ‘میرے شوہر کو جیل میں اب تک تین برس گزر چکے ہیں۔ اس کیس پر بہت پیسے اور محنت صرف ہو رہی ہے۔ ان کی حراست میں لیے جانے کے بعد سے گھر کی تمام ذمہ داری میرے سر ہے۔’

آسام

‘مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالوں، شوہر کی شہریت کے کیس میں وکیل کی فیس دوں یا بیٹی کا آپریشن کراؤں؟’

انارا خاتون بہت افسردہ چہرے کے ساتھ کہتی ہیں کہ ‘کیا میں مزدوری کے ذریعے کمائے گئے پیسوں سے اپنے بچوں کا پیٹ پالوں، اپنے شوہر کی شہریت کے کیس میں وکیل کی فیس ادار کروں یا اپنی بیٹی کا آپریشن کراؤں؟’

انارا کے تمام خاندان کو حال ہی میں جاری کردہ این آر سی کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘جب میری بچی پوچھتی ہے کہ میرے ابو کہاں ہیں تو میرا رونے کا دل چاہتا ہے۔ اگر کل کو پولیس ہمیں حراستی سینٹر میں بھیجتی ہے، تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کسی شخص کو دو مرتبہ نہیں مار سکتے۔’

آسام

عصمت کہتے ہیں کہ ‘میں سکول نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے کام پر جانا ہوتا ہے اور اگر میں مزدوری نہ کروں تو میری ماں کو بھوکے سونا پڑے گا۔’

زہین طالب علم مزدوری پر مجبور

17 سالہ محمد عصمت ایک انتہائی ہونہار طالب علم تھے۔ لیکن دو سال قبل جب ان کے والد کو حراستی سینٹر میں ڈالا گیا تو ان کی زندگی یکسر تبدیل ہو گئی۔

عصمت آسام کے ضلع دارنگ کے تھیرابری گاؤں کے رہائشی ہیں۔ ہماری گفتگو کے دوران وہ اپنے سکول کے دنوں کی خوشگوار یادیں تازہ کرنے لگے۔ وہ بتانے لگے کہ ‘مجھے سکول جانے سے، وہاں پڑھنے سے اور پھر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے اور گھومنے پھرنے سے محبت تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے دوست آج بھی کھیلتے ہیں اور سکول جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں سکول نہیں جا سکتا کیونکہ مجھے کام پر جانا ہوتا ہے اور اگر میں مزدوری نہ کروں تو میری ماں کو بھوکے سونا پڑے گا۔’

ان کے والد کے حراست میں لیے جانے کے بعد سے عصمت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہ گھر کے واحد کمانے والے بن گئے ہیں۔ اس کردار کو کم عمری میں نبھانا خاصہ مشکل ہے۔

عصمت بتاتے ہیں کہ ’میں روزانہ صرف 200 روپے کماتا ہوں۔ اب اتنی کم رقم کے ساتھ میں اپنے گھر والوں کی ضروریات اور اپنے والد کا کیس کو ایک ساتھ کیسے دیکھ سکتا ہوں۔

’ہم ابھی تک انھیں قانونی مدد فراہم نہیں کر سکے کیونکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ میں اپنے والد سے تین ماہ قبل ملنے گیا تھا اور وہاں جاتے وقت میرے ہاتھ خالی تھے، میں ان کے لیے کھانا اور پھل نہیں خرید سکا۔‘

اپنے والد سے ملنے جانے کے لیے عصمت کو تیزپور جانا پڑتا ہے جہاں جاتے ہوئے انھیں کم از کم ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کیس لڑنا تو دور کی بات ان سے ہر ماہ ملاقات کرنا میرے لیے ناممکن ہو جاتا ہے۔‘

آسام

یہ آسام کے ایسے بچوں کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی شہریت کی لمبی قانونی جنگ میں پھنس کر رہ گئے ہیں

قانونی جنگ میں پسنے والے بچے

قانون میں ان بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود نہیں ہے جن کے والدین شہریت کے سلسلے میں قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔

گوہاٹی کے سینیئر وکیل مصطفیٰ علی کہتے ہیں کہ قانون میں ایسی کوئی خصوصی سہولت موجود نہیں جس سے ان کم عمر بچوں کی دیکھ بھال کی جا سکے جو حراستی کیمپوں میں اپنے والد یا والدہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘فی الحال ایسی کوئی قانونی دفعات یا انتظامی ہدایات نہیں ہیں جس سے ایسے بچوں کی مدد کی جا سکے جو والدین کے زیرِ حراست ہونے کی وجہ سے اکیلے ہیں یا کم عمری کی وجہ سے والدین کے ساتھ حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ قانون اس بارے میں خاموش ہے۔’

یہ آسام کے ایسے بچوں کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی شہریت کی لمبی قانونی جنگ میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ وہ یا تو اپنے والدین کے ساتھ حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں یا والدین کے بغیر جینے پر مجبور ہیں۔ ان بچوں کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp