سہیل احمد خان اور ہمارا تہذیبی حافظہ


سہیل احمد خان کا داستانی تنقید کا سفر، داستانوں کی تفہیم کے حوالے سے کسی بنیادی مابعد الطبیعاتی نظام کی تلاش کا سفر ہے۔ اس سفر کی مبادیات اور ”راہ کی نشانیاں“ جاننے سے پہلے مابعد الطبیعات کی اصطلاح کو سمجھنا ضروری ہے۔ سہیل احمد خان نے داستانوں کوجب اپنے مطالعے کا مرکز بنایا تو اس وقت داستانی ادب کی نظری بنیادوں پر تو دو ایک کتابیں لکھی گئی تھیں (میری مراد کلیم الدین احمد کی کتاب اردو زبان اور فن داستان گوئی اور گیان چند جین کی تصنیف اردو کی نثری داستانیں سے ہے) مگر عملی تنقیدکے حوالے سے کوئی ایسا کام نہیں ہوا تھا جس میں کلیت کا احساس ہو۔ اس وقت (یہ اسّی کی دہا ئی کا آخر تھا) داستانی ادب پر بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ صاحب یہ تو حرکت اور عمل سے خالی کسی جناتی مخلوق کا پرچار کرتا ہوا ادب ہے۔ یہاں پر مابعد الطبیعاتی اصطلاح کو سمجھا جا سکتا ہے۔

مابعد الطبیعات ظاہر ہے طبیعات کے بعد کی چیز ہے۔ طبیعات مادے کا علم ہے۔ مادے کی بڑی خوبیوں میں حرکت بھی شامل ہے اور عمل بھی۔ اس حرکت اور عمل کا تقاضا کرنے والوں کو اپنے تقاضے سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ مابعد الطبیعات سے مادی لوازمات کی تلا ش کیوں کر، کر رہے ہیں۔ شاید اس تلاش کی بھی ضرورت نہ پڑتی اگر فاضل معترضین آرائش محفل کے ہیرو حاتم کی زندگی کو ذہن میں رکھتے۔

جارج اسٹا ئنر نے فن کے تاثر کی ایک مثال یہ دی ہے کہ اگر ہم نے سیزان کابنایا ہوا ”سیب“ یا اس کی تصویرو ں کی ”کرسی“ صحیح معنوں میں دیکھ لی ہے تو ”سیب“ یا ”کرسی“ ہمارے لئے وہ نہیں رہیں گے جو پہلے تھے۔ سہیل احمد خان کی داستانی تنقیدیں پڑھنے کے بعد بھی آپ کو جن بھوت اس سیاق و سبا ق میں نظر نہیں آئیں گے جس میں نظر آتے ہیں۔

اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی ندامت نہیں ہونی چاہیے کہ یہ جنوں بھوتوں سے بھری ہوئی کہانیا ں ہمارا تہذیبی حافظہ ہیں۔ اس حافظے کی بازیافت کے حوالے سے انتظار حسین نے الف لیلہ پر لکھتے ہوئے آج کے کہانی لکھنے والے کو یہ مشورہ دیا تھا کہ موجود انتشار میں اگر کوئی رابطے کا اہتمام مقصود ہے تو اپنے تہذیبی حافظے کو فرامو ش نہ کرے اور اگر تہذیبی حافظے کو کام میں لاؤ گے تو آج کے قاری سے مکالمہ ممکن ہے

سہیل احمد خان کی فکربھی اسی تہذیبی حافظے کی بازیافت کرتی نظر آتی ہے۔ داستان کی تفہیم کے حوالے سے وہ کسی روایتی دانش کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اگرچہ اول اول جب انہوں نے داستانوں کو سمجھنا شروع کیاتو ان متون کی قفل کشائی کے لئے مغربی کلید کا استعمال کیا (میری مرادجوزف کیمپ بل اور مرسیا ایلیادکے خیالات کے حوالے سے ہے ) مگر ان کے پیر و مرشد محمد حسن عسکری نے خط لکھا کہ ان مطالعات میں مشرقی /روایتی دانش کی حامل کتابوں فصوص الحکم، منطق الطیر، تذکرہ غوثیہ، فتوحات مکیہ، کشف المحجوب کا مطالعہ کیا ہے اور یہ کہ مشرق کو جاننے کے لئے مغرب کا راستہ کتنا درست ہے؟

ان استفہامیوں کا جواب اثبات میں نہ پا کر سہیل احمد خان نے اپنا مقالہ پھاڑ دیا۔ اس مشورے کے بعد سہیل احمد خان نے محمد حسن عسکری کا بتایا ہوا راستہ اختیار کیا اور داستانوں کے بحر ذخار میں سیاحت کے لئے مشرقی دانش کا سہارا لیا۔ فریدالدین عطار کی مثنوی منطق الطیر کو سامنے رکھا اور حاتم کو دیے جانے والے سات سوالوں اور سلوک کی سات منازل کے متوازی رکھ کر داستانی ادب کی تفہیم میں ایک حیرت انگیز سفر کی بنیاد رکھی۔ اس سے ایک بات کھل کر سامنے آئی کہ داستانی ادب اپنے مفاہیم کے اعتبار سے وہ کچھ نہیں جو ہم سمجھتے ہیں اس کی دنیا لامحدود ہے۔

یہ لامحدود دنیا کیا ہے؟ اتنا سیدھا سوال نہیں۔ اس کے جواب کے تلاش میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پینا پڑتا ہے۔ داستانی متون کو مشرقی دانش کے تناظرمیں دیکھنا پڑتا ہے۔ سہیل احمد خان نے داستان کی اکہری تعبیریں نہیں کیں بلکہ متنی سیاق و سباق میں مشرقی اصطلاحات کو متوازی رکھتے ہوئے دانش کے ایک بڑے دھارے سے تخاطب کو ممکن بنانے کی سعی کی ہے۔ یونانی، جو اپنی بصیرت کے حوالے سے معروف ہیں بکھری ہوئی کائنات کوchaos سے تعبیر کرتے ہیں اور اس انتشار کو سمیٹنے اور کوئی ایک جہت دینے کے عمل کو Cosmosکہتے ہیں۔

ان اصطلاحات کا اطلاق سہیل احمد خان کی داستانی تنقیدوں پر ہوتا ہے جنہوں نے داستان کی اتنی بکھری ہوئی دنیا کو فکری سمت دی۔ اس سمت نمائی میں ایک طرف مولانا روم، فریدالدین عطار، غوث علی شاہ قلندر، عبدالکریم الجیلی، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، محمد ارکون، اشرف علی تھانوی کے نام اور دوسری طرف مشرقی دانش سے دلچسپی رکھنے والے علماء رینے گینوں، فرتھ جوف شواں، ٹیٹس برک ہاٹ، میری لوئزون فرانز، ہنری کوربیں، جوزف کیمپ بل، مرسیا ایلیاد، لیوس ممفورڈ اور مشرقی دانش سے دلجوئی رکھنے والوں کا مرکب حسین نصر کی کتاب ”the encounter of man and nature“ کو اپنے مطالعات کا مرکز بنایا ہے۔

سہیل احمد خان نے طلسم، ہیرو اور تبدیلی قالب کو اپنے مطالعے کی کلید کے طور پر متعارف کروایا ہے۔ طلسم کی رائج اور مضحکہ خیز تعبیروں سے ہٹ کر اسے انفس و آفاق کی ہم آمیزی کا سمت نما دکھایا ہے۔ طلسم کو ایک بڑے کونیاتی عمل میں رکھ کر دنیا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس کوشش میں مشرقی دانش کے اشتراکی عناصر کی سمت نمائی بھی کی ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح منطق الطیر میں سیمرغ اور طلسم اجرام و اجسام میں مرغ اسرار کی تلاش کو تصوف کے بڑے دھارے میں اشتراکی عناصر کے طور پر دکھایا ہے۔ سہیل احمد خان نے منیر شکوہ آبادی کی طلسم گوہر بار کے طلسم میں طلسم کشا کو بچے کے روپ میں دکھانے کے عمل کو ابن العربی کی فصوص الحکم میں بچپن کی تعبیروں سے جوڑا ہے اور بتایا ہے کہ بچہ کس طرح کائناتی اسرار کو اپنے باطن میں جگہ دے کر ان کی تسخیر کرتا ہے۔

داستانی تنقید کے اس مطالعے کے دوران یہ رمز دھیان میں رہنی چاہیے کہ سہیل احمد خان کے داستانی مطالعات کا مرکز داستانوں کی علامتی کائنات ہے۔ اُردو داستانوں پر تنقیدی اعتبار سے جب سید وقار عظیم یا کلیم الدین احمد نے قلم اٹھایا تو ان کے پیش نظر جو تنقیدی معیارات تھے وہ فکشن سے متعلق تھے اور ان میں داستانی فضا کی تفہیم کے لئے افسانے اور ناول کی فضا کو سامنے رکھ کر نتائج کا استخراج کیا گیا تھا۔ سہیل احمد خان کی تخصیص یہ ہے کہ انہوں نے داستانی ادب کو خالصتاً ایک علیحدہ ادبی صنف کے طور پر رکھ کر اس کی معنوی جہات سے روشناس کروایا۔

انہوں نے یہ احساس دلوایا کہ بلاشبہ داستانیں اپنی اکہری سطح پر رزم و بزم کے مرقعوں، جنس کے چٹخارے اور تخیل کی اڑانوں کے ساتھ ساتھ اپنے باطن میں گہری رمزی فضا لئے ہوئے ہیں۔ یہ فضا تربیت نفس سے متعلق ہے۔ اس تربیت نفس کے فکری سوتوں کی تلاش میں سہیل احمد خان مشرقی و مغربی ماخذ کی کائنات کا پتِا پانی کر دیتے ہیں۔ اپنے ودیعت کردہ چست اور منطقی ذہن کے طفیل وہ داستانی متون کو حشو و زوائد سے پاک کرتے ہوئے ایک راستہ بناتے جاتے ہیں ایسا راستہ، جو داستانی عجائبات میں سیاحت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔

ان عجائبات کو جو ہمارا تہذیبی حافظہ تھے، ہم تک پہنچنے میں پتا نہیں کتنے مصائب جھیلنا پڑے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے جس کی مبادیات دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں۔ اٹھارویں صدی میں اگر برصغیر کے طباعتی نظام کو دیکھا جائے تو چھاپے خانے اتنے عام نہیں تھے۔ انیسویں صدی میں جب کتب کی اشاعت کی باری آئی تو مختصر قصوں کو بھی اشا عت کا منہ دیکھنا نصیب ہوا۔ یہ قصے ”باغ و بہار“، ”آرائش محفل“ (قصہ حاتم طائی) ”مذہب عشق“ (قصہ گل بکاؤلی) ”فسانہ عجائب“ وغیرہ چھپے لیکن طویل داستانوں کو شائع نہیں کیا گیا حالاں کہ انیسویں صدی کے نصف اول میں بھی بڑے پائے کے داستان گو موجود تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2